آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اس واجب کے اخلال کا تو بواسطہ مفضی ہو امعصیت کی طرف ، حیرت میں تھے بیچارے کہ یہاں تو ہر چیز حدیث کے ماتحت ہے ،سمجھ توگئے ہوں گے کہ ہم حدیث وقرآن کو خاک نہیں سمجھتے ، یہ اللہ کا فضل ہے کہ ہر چیز بقدر ضرورت قلب میں پیدافرمادیتے ہیں ،بحمداللہ تعالیٰ اپنے بزرگوں سے ضرورت کی ہر چیز کانوں میں پڑچکی ہے ،جس نے زیادہ کتابوں کے دیکھنے سے بھی مستغنی کردیا ہے، اور کتابیں توپہلے ہی سے نہیں آتی تھیں نہ کبھی طالب علمی کے زمانہ میں زیادہ کنج وکاوش کی گئی اور نہ اس کے بعد کتب بینی کی طرف رغبت ہوئی ، بس یہ جو کچھ ہے اپنے بزرگوں کی دعاء کی برکت اور خدا وند جل جلالہ‘ کا فضل ہے کہ گاڑی کہیں اٹکتی نہیں ۔۱؎مکالمہ نمبر۷ (ایک غیر مقلد مولوی صاحب کا میرے پاس خط آیا کہ میں تمہارے پاس امتحان لینے کے لئے آنا چاہتا ہوں ،چنانچہ وقت مقررہ پر وہ تشریف لائے اور مجلس میں بھی بیٹھے ،اس مجلس میں )ایک شخص میرے پاس آیا اس پر خواہش نفسانی کا غلبہ تھا، مگر غریب نادار تھا اتنی قدرت نہ تھی کہ وہ نکاح کرسکے ، اس نے آکر مجھ سے اپنی حالت بیان کی اور علاج کا طالب ہوا ابھی میں اس کو جواب بھی نہ دینے پایا تھا کہ میرے بولنے سے قبل اس کی گفتگو سنتے ہی آپ (غیر مقلد صاحب) بولے کہ روزے رکھا کرو کیونکہ حدیث میں آیا ہے ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم یعنی جو شخص نکاح کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اس کو روزے رکھنا چاہے اس شخص نے جواب دیا کہ میں نے روزے بھی رکھے تھے مگرا س سے بھی میری خواہش کم نہیں ہوئی اس کا یہ جواب سن کر ان (غیر مقلد) صاحب کے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔ ------------------------------ ۱؎ ملفوظات حکیم الامت ص۵۲۹ج۳قسط ۵ ملفوظ نمبر۸۷۲،۲۴جمادی الاولیٰ ۱۳۵۱ھ