آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اس سے معلوم ہوا کہ ہندوستان میں کسی جگہ کے مسلمان بطور خود بدون گورنمنٹ کی اجازت کے اگر کسی کوقاضی بنالیں تو وہ قاضی نہ ہوگا کیونکہ اس کی ولایت عامہ نہ ہوگی ۔ البتہحَکَم ہوجائے گا جس کا فیصلہ اسی وقت معتبر ہوگا جب کہ مدعی اور مدعیٰ علیہ دونوں رضا مندی سے اپنے معاملہ کو اس کے سپرد کردیں اور اگر ایک نے معاملہ سپردکیااو دوسرے نے سپرد نہ کیاتو اس صورت میں حَکَم کا فیصلہ کالعدم ہے۔فریقین کی رضامندی سے حَکَم کے ذریعہ بھی فسخِ نکاح کرایاجاسکتا ہے اور فریقین باہمی رضامندی سے اگر کسی کو حَکَمبنالیں اور وہ موافق حکمِ شرع فیصلہ کرتے تو اسے بھی فسخ نکاح وغیرہ کا اختیارہوگا اور اس کے فسخِ سے نکاح فسخ ہوجائے گا ، یعنی جب معاملہ سپرد کردیا گیااور فیصلہ تک تحکیم سے کسی فریق نے رجوع نہ کیا تو اب حکم کافیصلہ بھی مثل قاضی کے فیصلہ کے لازم ونافذ ہوجائے گا پھر کوئی فریق اس کو توڑ نہیں سکتا بشرطیکہ فیصلہ موافق حکمِ شرع ہو۔ قال الشامی اماالمحکم فشرطہ اہلیۃ القضاویقضی فیما سوی الحد ود والقصاص اھ (ص۴۶۲ج۴) وفیہ ایضًا التحکیم عرفاتولیۃ الخصمین حاکما یحکم بینہماببینۃ اواقرار أونکول، ورضیابحکمہ (قولہ الی ان حکم) احتراز عمالورجعاعن تحکیمہ قبل الحکم اوعمالورضی احدہما فقط (ص۱۲شامی) صح ولو فی غیر حدوقودودیۃ علی عاقلۃ لان حکم المحکم بمنزلۃ الصلح وہذا لاتجوز بالصلح فلاتجوز بالتحکیم،