آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اختلافی مسائل اورفتاویٰ میں عدل وانصاف کی ضرورت قال اللہ تعالیٰ: یَااَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْاکُوْنُوْاقَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَائَ بِالْقِسْطِ وَلاَیَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلیٰ اَنْ لاَّتَعْدِلُوْااِعْدِالُوْاہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ ۔( سورہ مائدہ پ۶) وقال تعالیٰ: وَلاَ تَقْفْ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ الآیۃ (بنی اسرائیل پ ۱۵) ان آ یتوں میں حکم ہے کہ کسی کے ساتھ اگر اختلاف یا خلاف بھی ہو عدل سے اس حالت میں بھی تجاوز کرنا جائز نہیں نیز بلادلیل صحیح کوئی دعویٰ کرنا جائز نہیں ،اس حکم کے تحت میں ایک واقعہ عرض کرتاہوں کہ ۲۹؍ذیقعدہ ۱۳۵۷ھ کو ڈاک سے میرے پاس ایک صاحب کا خط جس میں کاتب صاحب کا نام اور نشان نہ لکھا تھا مع ایک حصہ نقیب اخبار کے آیا جس میں مضمون خطاب مسلم لیگ کے متعلق ایک اعتراض تھا اور اصل اعتراض کے ساتھ خط میں بہت سی بدزبانیاں اور بدگمانیاں بھی جمع کردی تھیں ،اعتراض تو مجھ کو الحمداللہ کبھی ناگوار نہیں ہوتا بلکہ اگر اس کی بناء صحیح ہوتو میں اس کو رہنمائی سمجھ کر ممنون ہوتا ہوں البتہ اگراس کی بناء فاسد ہویابناء کے صحیح ہوتے ہوئے لہجہ طعن وتشنیع کا ہووہ طبعاً ضرور گراں ہوتا ہے مگرا س حالت میں بھی صحت بناء کی صورت میں اس کے جواب بالمثل کو اور فساد بناء کی صورت میں نفس جواب کو فضول سمجھ کر نظرانداز کردینے کامعمول ہے، البتہ نفس واقعہ کی تحقیق کو تدین کا مقتضاسمجھ کر ضروری سمجھتاہوں ۔۱؎مفتی کو معتدل المزاج ہونا چاہئے کانپور میں ایک شخص نے میرے سامنے اہل بدعت کی برائی کرنا شروع کیا، میں نے ان کی طرف سے تاویلات کرنا شروع کردیں ، پھر اس نے غیر مقلد کی برائیاں شروع کیں ، میں نے ان کی طرف سے تاویلات کرنا شروع کردیں اس نے متحیر ہوکر ------------------------------ ۱؎ افادات اشرفیہ ص۸۲