آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
کیا)ایسے صریح حرام کو جس کی تصریح نص قرآنی میں موجود ہے توڑ مروڑ کر حلال ہی کرکے چھوڑااور ایسا ویسا حلال بھی نہیں بلکہ باقاعدہ قیاس مرتب کرکے دلیل قائم کرکے تب حلال کیا اور اپنے خیال کے موافق اس میں کوئی موقع اعتراض کا نہیں چھوڑا، ہاں ایک اعتراض ممکن ہے کوئی وارد کرے کہ انہوں نے اس بناپر اس عورت کو حلال کیا کہ اس کی بیٹی سے نکاح صحیح نہیں ہواتھا لہٰذا وہ ساس ہی نہیں ہوئی۔ لیکن امام ابوحنیفہ کے نزدیک ام مزنیہ سے بھی نکاح حرام ہے ، بی بی سے نکاح نہ ہوانہ سہی لیکن وطی بالزنا تو ثابت ہے لہٰذا اس حالت میں بھی ساس سے نکاح حرام ہے لیکن بات یہ ہے کہ جب اس شخص نے صریح حکم کو پھیر پھار کرالٹ دیا تو اسے اس اشکال کا جواب دینا کیا مشکل ہے سیدھا ساجواب یہ ہے کہ یہ کہہ دے یہ ابوحنیفہ کی رائے ہے کہ مزنیہ کی ماں سے نکاح حرام ہے ،ابوحنیفہ کی رائے ہمارے واسطے حجت نہیں ۔ اس کے مقابلہ میں اور بھی رائیں ہیں ، افسوس کیا ناس کیا ظالم نے دین کا ،ایسے ہی نام کے مولوی دین اور اہل دین کو بدنام کرتے ہیں جہاں دو حرف آگئے بس اپنے کو مولوی سمجھنے لگے اور فتوی دینے بیٹھ گئے ۔ ابن المنصور کا کام اسی طرح تو تمام ہوا ،ایک وزیران کا دشمن تھا اس واقعہ سے اس کو موقع مل گیا اور حکومت کے اثر سے علماء سے فتوی لے کر ان کو سولی پرچڑھادیا ،ساری دینداری وزیر کی بس اسی فتوے پر تھی ، درحقیقت نکالی تو عداوت اور آڑ رکھی فتوے کی، اسی طرح یہ علماء دنیا طلب کرتے ہیں کہ خواہش تو پوری کرتے ہیں نفس کی اور آڑرکھتے ہیں دین اور فتوے کی ، خدابچائے ایسے مولویوں سے ۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ وعظ الصالحون ملحقہ اصلاح اعمال ص۱۴۹