آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
پھر ہرایک امر میں جوشبہ ہو اس سے پوچھ لو،جوکام کرنا چاہو پہلے اس سے پوچھ لو،اگر وہ جائز بتلائے تو کرو ورنہ نہیں اور یہ بھی سمجھ لو کہ باتیں دوقسم کی پوچھی جاتی ہیں ، ایک تو احکام دوسرے اس کے دلائل ،جو بات وہ بتلائے اگر اس کی دلیل تمہاری سمجھ میں نہ بھی آئے تب بھی اس شخص کی اطاعت نہ چھوڑوبلکہ اس کی بات بلادلیل مان لو، دنیاوی امور میں بھی عقلاء کا یہی طریقہ ہے ، آخر سول سرجن کا قول مان لیتے ہو،کچھ اگر مگر نہیں کرتے گودلیل نہ سمجھ میں آئے ،اسی طرح دین میں جس کو متبوع قراردو(یعنی جس پر اعتماد کرو) اس سے زیادہ گڑبڑنہ کرو،زیادہ محقق نہ بنو، عمل کرو، اگر محقق بننے کا شوق ہوتو مدرسہ میں آکر پڑھو، غرضیکہ ایک شخص کو متبوع مقررکرلینے میں بہت پریشانیوں سے بچ جاؤگے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت نے اس مسئلہ مختلف فیہا کا جوآج کل بہت معرکۃ الآراء سمجھاجاتا ہے فیصلہ کیا ہے اور دونوں مرضوں کا علاج کیا ہے ، خودرائی کا بھی اور عدم معیارکا بھی جس کا حاصل یہ ہے کہ اتباع کروسبیلِ حق کا مگر مَنْ اَنَابَ اِلَیَّکے واسطے سے(یعنی ان لوگوں کے واسطے سے جو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتے ہیں ) اورگومن اناب میں متعدداشخاص کے اتباع کرنے کا مضائقہ نہ تھا ، لیکن تجربہ سے معلوم ہوا کہ ایک کے متعین کرلینے میں راحت اور انتظام اور نفس کی حفاظت ہے ،پس اس زمانہ میں علماء اور مشائخ کواس معیار سے جانچئے ،اگرکوئی جامع مل جائے تو ایک کوورنہ دوکو منتخب کرکے ان کا اتباع کیجئے ۔ اگر دین پر چلنا چاہتے ہوتو اس کا یہ طریقہ ہے ورنہ اس کے بغیر آج کل دین سالم رہنے کا کچھ اعتبار نہیں ،جوشخص اس طریقہ کے خلاف کرے گا، کچھ تعجب نہیں کہ وہ دین سے بہک جائے ،میں نے ایک ایسی بات بتلادی ہے کہ عمر بھر کے لئے دستورالعمل بنانے کے قابل ہے ،اور جو اس پر عمل کرے گا اس کو کبھی گمراہی نہ ہوگی۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ اتباع المنیب ملحقہ نظام شریعت ص۲۳۳،۲۳۸تا۲۴۰