آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
نے قصداتباع قبلہ ہی کا کیا ہے مگر صحیح سمت معلوم کرنے سے معذور رہے، جتنا ان کا اختیاری فعل تھا وہ انہوں نے اداکردیا، اس سے ثابت ہوگیا کہ اختلاف کی حالت میں جس کا بھی اتباع کیا جائے گا حق تعالیٰ کے نزدیک وہ مقبول ہے حتیٰ کہ اگر خطا پر بھی ہے تب بھی کوئی باز پرس نہیں بلکہ اجر ملے گا ،تو ثابت ہوگیا کہ دین کے راستہ میں کوئی ناکام نہیں بلکہ اگر وہ مقلد ہے تو اس کو معذور سمجھاجائے گا اور اگر مجتہدہے تو اس پر بھی ملامت نہیں بلکہ ایک اجراس خطا کی صورت میں بھی ملے گا ،تو دین میں کسی طرح بھی ناکامی نہ ہوئی حتی کہ خطا کی صور ت میں بھی کامیابی ہی رہی ،تو اب وہ حیلہ آپ کا کہ علماء میں اختلاف ہے ہم کس کا اتباع کریں بالکل نہیں چل سکتا۔ علماء کے اختلاف کی صورت میں آپ جس کا بھی اتباع کریں گے تعمیل حکم ہوجائے گی ،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جس بات میں اختلاف دیکھو بے سوچے سمجھے یا ہواے نفسانی سے جس کا چاہو اتباع کرلو،مثلاً قادیانی اور سنی کا اختلاف دیکھو تو کیفما اتفق ایک فریق کو اختیار کرلو، قرآنی اور غیر قرآنی کا اختلاف دیکھو تو جس فریق کو چاہو اختیار کرلو یہ مطلب ہرگز نہیں ، کیونکہ گفتگو ہے علماء حقانی کے اختلاف کے بارہ میں پہلے اس کی تحقیق کرلو کہ دونوں علماء حقانی ہیں یانہیں ؟ جب تحقیق ہو جاوے کہ دونوں حقانی ہیں تو اب دونوں کی اتباع میں گنجائش ہے، جس کی بھی موافقت کر لی جائے گی تعمیل حکم ہوجائے گی اور وہ موجب رضاء خدا ہوگی ، اب آپ کہیں گے کہ ہم یہ کیسے تحقیق کریں کہ کون علماء حقانی ہیں ، اس کے لئے میں بہت مختصر طریق بتلاتاہوں وہ یہ ہے کہ اپنے معاندانہ اعتراضات اور اغراض کو چھوڑ کر اور حق تعالیٰ کو حاضر ناظرجان کر اور دین کو ضروری سمجھ کر ان علماء کے حالات میں غورکیجئے ،اگر آپ ایسا کریں گے تو عادۃ ممکن نہیں کہ نہ پہنچان سکیں کہ یہ علماء حقانی ہیں یانہیں ، دیکھو علاج کی ضرورت کے وقت اور قتل کے مقدمہ کی پیروی کے وقت آپ طبیبوں اور وکیلوں کی تلاش کرتے ہیں تو آپ کو