آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اب آپ شاید یہ کہیں یہ توعجیب گڑبڑ ہے ، دونوں طرف دلیل موجود ہے تو اس میں ہم کس کو ترجیح دیں ، ہمارے لئے توبڑی مشکل ہوگئی، لڑیں تو علماء اور بیچ میں مارے جائیں ہم، میں کہتاہوں کہ اس وقت بھی حق کے معلوم کرنے کا ایک طریقہ ہے، طلب صادق چاہئے طالب حق کے لئے کہیں راستہ بند نہیں ، وہ طریقہ یہ ہے کہ اگر طالب صاحب فہم ہے تو دونوں دلیلوں میں قوت وضعف کو دیکھ کر ترجیح دے سکتا ہے، بشرطیکہ انصاف سے کام لے اور خدائے تعالیٰ کا خوف اور راہ حق کی طلب کو پیش نظر رکھے اور اگر صاحب فہم نہیں ہے اور دلیل کو کسی طرح سمجھ ہی نہیں سکتا تو اس کے لئے آسان طریقہ ترجیح کا یہ ہے کہ دونوں فتوے دینے والوں کو دیکھے اور دونوں کے حالات پر غور کرے، اس کے نزدیک جو متقی اور پرہیز گار زیادہ ثابت ہو اس کے فتوے کو ترجیح دے اور اسی پر عمل کرے، مگریہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ محض ایک نظر میں سرسری طورپر دیکھنے سے یہ بات نہیں معلوم ہوسکتی اس کے لئے ضرورت ہے کہ کم از کم ایک ایک ہفتہ دونوں کے پاس بالکل خالی الذہن ہو کر رہو نہ ان کے معتقد بنو نہ مخالف بلکہ منصفانہ نظر سے دونوں کو دیکھتے رہو اور سفرو حضر خلوت وجلوت میں ان کے حالات میں غور کرتے رہو، اس میں اگر دیر لگے گی تو کچھ مضائقہ نہیں تم عنداللہ ماجورہوگے ،اتنے غورکے بعد ضرور تم پر حق واضح ہوجائے گا، طالب صادق کی تائید حق تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور اگر بالفرض تلاش سے بھی فیصلہ نہ ہواور کسی فریق کی ترجیح سمجھ میں نہ آوے اور تمہارے نزدیک دونوں علم وتقوی میں برابر ثابت ہوں تو اس صورت میں جس طرف دل گواہی دے اس طرف ہوجاؤ، بس جو کام تمہارے کرنے کا تھا تم کرچکے اب اگر غلطی بھی رہی تو تم معذور ہو،اس بات کو میں پھر دہرائے دیتاہوں کہ اس طریق کے ہر جزو میں اس کا اہتمام ضروری ہے کہ محض طلب حق اور للہیت رہے نفسانیت وغرض اور ضدنہ آنے پائے ،یہ ممکن نہیں کہ اس طرح کوئی تلاشِ حق کرے اور اس کو حق نہ ملے ، حق تو بہت واضح چیز ہے وہ کسی طرح چھپ ہی نہیں سکتا۔