آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
میں نے ان صاحب کو سنا کر اس شخص سے دریافت کیا کہ تم نے کتنے روزے رکھے تھے ،اس نے کہا دوروزے رکھے تھے میں نے کہاں یہی وجہ ہے کہ تم کو کامیابی نہیں ہوئی ،کیونکہ تم کو کثرت سے روزے رکھنے چاہئے تھے ،اور یہ شر ط خود اس حدیث پاک سے ثابت ہے اور وہ اس طرح کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ،فعلیہ بالصوم لفظ علیٰ لزوم کے لئے آتا ہے اور لزوم کی دوقسمیں ہیں ایک لزوم اعتقادی دوسرے عملی مگر دلائل سے یہاں لزوم اعتقادی تو مراد ہو نہیں سکتا ۔ کیونکہ یہ صوم (روزہ رکھنا) فرض نہیں محض علاج ہے بس لزوم عملی مراد ہوگا اور لزوم عملی ہوتا ہے تکرار وکثرت سے ،چنانچہ جب کوئی شخص کسی کام کو با ربار اور کثرت سے کرتاہو تو سمجھا جاتا ہے کہ یہ کام اس نے اپنے اوپر عملی طورپر لازم کرلیا ہے پس مراد حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہے کہ کثرت سے روزے رکھو۔ اور مشاہدہ ہے کہ قوت بہیمیہ (شہوانی قوت) کے انکسار (توڑنے ) کے لئے جو کہ علاج کا حاصل ہے ،تھوڑے روزے کافی نہیں بلکہ کثر ت صوم پر یہ اثر مرتب ہوتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ شروع رمضان میں ضعف نہیں ہوتا اور آخر رمضان میں ضعف ہوجاتا ہے ۔ اوریہ تجربہ ہے کہ شروع رمضان میں توقوت بہیمیہ شکستہ نہیں ہوتی بلکہ رطوبات فضلیہ کے سوخت ہوجانے کی وجہ سے اس قوت میں اور انتعاش (جوش) ہوتا ہے پھر رفتہ رفتہ ضعف بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ آخر میں پوراضعف ہوجاتا ہے جس سے قوت بہیمیہ شکت ہوجاتی ہے کیونکہ اس وقت روزہ کی کثرت متحقق ہوجاتی ہے وہ سائل تو چلاگیا مگر مجتہد صاحب پھر کچھ نہیں بولے میرے پاس ان کا خط آیا تھا کہ میں تمہاراامتحان لینے آتاہوں ان ہی غریب کا امتحان ہوگیا۔۱؎ ------------------------------ ۱ ؎ الافاضات الیومیہ ص۱۶۵ج۹