آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
خوش ہوئے کہا کہ آج تک اس طرف نظرنہ گئی۔ دسرامسئلہ سماع موتیٰ کا پوچھا اور کہا کہ’’ اِنَّکَ لاَتُسْمِعُ الْمَوْتیٰ‘‘ قرآن میں ہے جس سے اس کی نفی معلوم ہوتی ہے ، میں نے کہا کہ حدیث میں وقوع سماع مصرح ہے اور اس آیت سے نفی نہیں ہوتی، اس لئے کہ یہاں پر حق تعالیٰ نے کفار کو موتیٰ سے تشبیہ دی ہے اور تشبیہ میں ایک مشبہ ہوتا ہے اور ایک مشبہ بہ اور ایک وجہ تشبیہ جودونوں میں مشترک ہوتی ہے، تو یہاں وہ عدم سماع مراد ہے جو موتیٰ اور کفار میں مشترک ہے، اور اموات کا سماع وعدم سماع تو معلوم نہیں مگر کفار کا تو معلوم ہے کہ قرآن وحدیث کو سنتے ہیں مگر وہ سماع نافع نہیں اور یہ معلوم ہے کہ مشبہ مشبہ بہ میں وجہ شبہ میں تماثل ہوتا ہے ، پس کفار سے جو سماع منفی ہے یعنی سماع نافع ویسا ہی سماع اموات سے منفی ہوگا نہ کہ مطلق سماع ،بے حد دعادی ، پھر بیعت کی درخواست کی، میں نے کہا کہ اس میں تعجیل مناسب نہیں ،پھر بیان کیا کہ میں فلاں عالم غیر مقلد سے بیعت بھی ہوچکا ہوں ، میں نے کہا کہ اب تکرارِ بیعت کی کیاضرورت؟ کہنے لگے کہ ان سے بیعت تو بہ ہوجائے گی آپ سے بیعت طریقت، میں نے کہا کہ یہ بتلائیے کہ انہوں نے بوقت بیعت آپ سے کیا عہد لیا تھا؟کہا کہ کتاب وسنت پر عمل اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر۔ میں نے کہا کہ یہی یہاں پر ہے ، اس کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ، بس مقصود حاصل ہے ،اس پرسوال کیا کہ کیا تکرارِ بیعت خلاف شریعت ہے؟معصیت ہے ؟ میں نے کہا کہ معصیت تونہیں مگر بواسطہ مفضی ہوسکتی ہے معصیت کی طرف، وہ یہ کہ جب شیخ اول کو معلوم ہوگا کہ یہاں کے تعلق کے بعد فلاں جگہ تعلق پیداکیا، توبعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ انقباض کا اثر قبول کرتی ہیں تو اس اثر سے حُب فی اللہ میں کمی ہوگی، یابالکل زائل ہوجائے گی ،پھر اس کے ساتھ ہی تکدر ہوگا اور یہ تکدراذیت ہے ، اور حب فی اللہ کا بقا واجب ہے اور اذیت سے بچانا بھی واجب ہے ،اور یہ تکرارِبیعت سبب ہوا