آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
لغزشیں کھا سکتا ہے، اور ان مباحث سے واقفیت کے بعد وہ حدود پر قائم رہ سکتا ہے۔ بلاشبہ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے یہ علمی و فقہی مضامین ایسے ہیں کہ ان کے مطالعہ سے تفقہ پیدا ہوتا ہے، جدید مسائل کے حل کرنے میں بھی رہنمائی ملتی ہے، جس درجہ کے اجتہاد کی ضرورت ہے وہ اجتہادی شان اور فقہی بصیرت بھی ان کے مطالعہ سے پیدا ہوتی ہے۔ ہرچند کہ دورجدید میں مشائخ اور مفتیوں کی کمی نہیں ہے، جگہ جگہ مشائخ موجود، دارالافتاء قائم ہیں ،نااہلیت کے باوجود ہر شخص اجتہاد کرنے،مسائل میں رائے زنی کرنے اور فتویٰ لکھنے کو تیار بیٹھا ہے، خواتین کے لیے بھی تربیت افتاء کے ادارے قائم ہیں ، لیکن مشاہدہ ہے کہ بڑی تعداد مفتیوں اور مفتیات کی ایسی بھی ہے جن کو فقہ سے مس نہیں ، فقہی بصیرت نہیں ، مطالعہ محدود، صلاحیت ناقص، استعداد کمزور، شان فقاہت سے عاری، نتیجتاً ضلوا فاضلوا کا مصداق ہیں ۔ احقر نے ان مضامین کو اسی غرض سے جمع کیا ہے تاکہ اس نوع کے علمی و فقہی اور افتاء کا کام کرنے والوں میں جو نقائص و خامیاں رہ جاتی ہیں ان کی تلافی کسی درجہ میں حضرت تھانویؒ کے ان مضامین سے ہوسکے، احقر نے اس نوع کے مضامین کو چار کتابوں میں جمع کیا ہے۔ (۱) فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنہ والبدعہ (۲) آداب افتاء و استفتاء (۳) اجتہاد و تقلید کا آخری فیصلہ (۴) مسئلۂ تکفیر(۵) آداب تصنیف وتالیف مع آداب خط وکتابت،وصحافت۔ اب سے تقریباً ۲۰ سال قبل یہ تینوں کتابیں شائع ہوئی تھیں الحمدﷲ اہل علم اور ارباب افتاء نے اس کی قدر فرمائی، افتاء کی تربیت حاصل کرنے والوں کے مطالعۂ نصاب میں داخل کی گئیں اور ان کے پڑھنے کی ہدایت اور تاکید کی گئی، اس سے احقر کو حوصلہ ملا، اس عرصہ میں احقر کو مزید علمی تحقیقات دوران مطالعہ ملیں ، ان اضافات کو بھی