آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
چہار طرف ایک آگ لگی ہوئی تھی یہاں تک نوبت آگئی تھی کہ علاوہ برا بھلا کہنے اور لعن طعن اور قسم قسم کے بہتان والزامات لگانے کے دھمکی کے خطوط میرے پاس آئے کہ یا تو شریک ہوجاؤ ورنہ قتل کردئیے جاؤگے، اس وقت غایت شفقت اور محبت کی بنا پر حضرت مولانا خلیل احمد صاحبؒ نے ایک خاص اور معتمد شخص کی زبانی کہلا کر بھیجا کہ یہ وقت خطرہ کا ہے اگر بظاہر تھوڑی سی شرکت کرلو تو گنجائش ہے، میں نے کہلا بھیجا کہ یہ آپ کی محبت اور شفقت کا اقتضاء ہے مگر سب سے بڑا خطرہ جان کا چلاجانا ہے سو اس کے لیے میں اپنے نفس کوتیار پاتا ہوں لیکن اس پر آمادہ نہیں ہوں کہ بلا سمجھے شرکت کرلوں ، اور نہ اس پر قدرت ہے کہ بظاہر تو شرکت کروں اور باطن میں الگ رہوں ، اس کو میں منافقت سمجھتا ہوں اور بحمداﷲ اس وقت تک ہر خطرہ سے محفوظ آپ کے سامنے زندہ اور صحیح سلامت موجود ہوں ، لڑکیوں کا کھیل بنا رکھا ہے، یہ دین ہے کہ یا تو وہ کرو جو ہم کریں ورنہ قتل کردئیے جاؤ گے، اسی زمانہ میں میں جنگل معمول کے موافق صبح کو گیا، ایک ہندوراجپوت بوڑھا تھا نہ بھون ہی کا رہنے والا ملا، بستی کے ہندو بھی جو پرانے خیال کے اورپرانے عمر کے ہیں محبت کرتے ہیں ۔ کہنے لگے مولوی جی کچھ خبر بھی ہے تمہارے واسطے کیا تجویز یں ہورہی ہیں تنہا اس طرح جنگل میں مت آیا کرو، میں نے کہا کہ چودھری مجھ کو اس کی بھی خبر ہے اور ایک بات کی اوربھی خبر ہے جس کی تم کو خبرنہیں کہنے لگا کہ جی وہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ بدون اس کے حکم کے کوئی کچھ نہیں کرسکتا، وہ تھا تو ہندومگر یہ سن کر اس قدر اس پر اثر ہوا، جوش میں آکر کہنے لگے کہ مولوی جی تم جہاں چاہے پھر و، تمہیں کچھ جوکھم (خطرہ) نہیں ایسے آدمی کے لیے گھر، جنگل پہاڑ سب ایک ہی سے ہیں ۔ غرض کہ ڈاکٹر صاحب اپنے بھائی کو ہمراہ لے کر یہاں پر آئے پہلی ملاقات تھی مگر نہایت بے تکلفی سے گفتگو شروع کی، گفتگو کرنے پر معلوم ہوا کہ آدمی سمجھ دار تھے، مگر غلطی میں مبتلا تھے۔