آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
مسہل دے دیجئے،میری التجا جناب کو ناگوارنہ ہونی چاہئے،بعض وقت طبیب کاذہن ایک بات کی طرف نہیں جاتا مریض کے عرض کرنے سے پہنچ جاتاہے، اس وقت اس مضمون سے زیادہ ضروری کوئی دوسرا مضمون نہیں معلوم ہوتا اس وجہ سے جناب سے التجا کی گئی۔ حضرت والا:زیادہ تہذیب کے الفاظ کو چھوڑدیجئے زیادہ تہذیب کی حقیقت تصنع ہے معاملہ کی بات ہے کہ میراپیشہ وعظ گوئی نہیں ہے نہ مجھے وعظ کہنے کی خواہش ہے نہ ضرورت محض آپ لوگوں کی رغبت دیکھ کر بیان کے لئے تیار ہوگیاہوں ،دوحال سے خالی نہیں آپ نے جورائے دی یہ امر ہے یامشورہ،اگر امر ہے تو آپ میرے کوئی حاکم نہیں اس واسطے یہ آپ کافرمانا میرے لئے واجب العمل نہیں اور اگر مشورہ ہے تو آپ کا شکریہ ادا کیا جاتاہے کہ آپ نے جس بات کو مفید سمجھا پیش کردیا اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیردے،لیکن اس کا یہ اثر نہیں ہوسکتا کہ میں اس کے ماننے پر مجبور ہوں ممکن ہے کہ میر ے نزدیک مفید نہ ہو،میں نے سن لیا اور اس سے برابھی نہیں مانا اب مجھے اختیار ہے کہ اس پر عمل کروں یا نہ کروں آپ کو حق تھا کہ جس بات کو آپ نے مفید سمجھاپیش کردیاجیسے آپ کی مثال میں ہے کہ مریض نے رائے دی کہ میرے لئے مسہل کی ضرورت معلوم ہوتی ہے اس واسطے یہ رائے دینا درست ہے کہ شاید طبیب کا ذہن اس طرف نہ گیا ہوتو اس کے کہنے سے پہنچ جائے لیکن اپنی رائے ظاہر کردینے کے بعد مریض کو اصرار کا حق نہیں ہے ،یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ کو یہی کرنا ہوگا ورنہ آپ غلطی کریں گے ،وہ تو خود طبیب ہے سب جانتے ہیں کہ مریض طبیب میں اس طرح معاملہ نہیں ہوتا حتی کہ اگر کوئی طبیب ایسا ہو کہ مریض کے کہنے پر چلتا ہو توعقلاً اس کو بیوقوف کہیں گے۔ اب میں سب سے اور خصوصاً آپ سے عرض کرتاہوں آپ کی رائے سننے کے بعد مجھے کیاکرنا چاہئے آیا اس رائے کا ماننا میرے لئے ضروری ہے اور آپ کی رائے پر