آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
حق تلفیاں مسلمانوں کی کیں اور جو ناجائز مظالم کئے کوئی مسلمان ان کو سن کرخاموش نہیں رہ سکتا،(اس کے بعد چند مظالم تفصیل کے ساتھ بیان کئے ) ہم چاہتے ہیں کہ آج اسی کے متعلق آپ بیان فرمادیں ۔ حضرت والا۔اب میں کچھ عرض کروں مگر میں امید کرتاہوں کہ آپ میری تقریر کو اس طرح ٹھنڈے دل سے سنیں گے جیسے میں نے آپ کی تقریر کو سنا،آپ نے جو کچھ مشورہ دیایا فرمائش کی اس کومیں خیر خواہی پر محمول کرتاہوں لیکن اتنا کہنا چاہتاہوں کہ وعظ ایک معالجہ ٔروحانی ہے جیسا کہ دواکرنا معالجۂ جسمانی ہے علاج کا قاعدہ یہ ہے کہ جس کے سپرد کیا جائے اس سے پہلے تحقیق کرلینا چاہئے کہ یہ شخص جس کے سپردعلاج کیا جاتا ہے اس کا اہل ہے یا نہیں اگر اہل نہیں ہے تو اس کے سپرد کرنا ہی غلطی ہے، ایسا شخص نہایت خطرناک ہے، ایسے شخص کے علاج میں خطرہ جان کا ہے اور علاج روحانی میں خطرہ ایمان کا ہے، اور اگر اہل ہے تواس کو معالجہ میں رائے دینا میں نہیں کہہ سکتا کہ کہاں تک ٹھیک ہے ، کیونکہ اگر اس کو رائے دینے کی ضرورت ہے اور آپ رائے دے سکتے ہیں تو آپ خود طبیب ہیں آپ خود ہی علاج کرلیجئے اس کے پاس جانے اور تکلیف اٹھانے کی کیا ضرورت ہے اگر مجھ سے بیان کرانا ہے تو پہلے اطمینان کرلیجئے کہ میں اس کا اہل ہوں یا نہیں ؟ اگر نہیں ہوں تو بیان نہ کرائیے اوراگر اطمینان ہے کہ میں اہل ہوں تو مشورہ دینے کی ضرورت نہیں ، یہ خطاب صرف آپ ہی کو نہیں ہے بلکہ سارے مجمع کوہے سب کو حق ہے رائے دینے کا اور میں سب سے جواب چاہتاہوں ۔ مقررصاحب۔ یہ جناب کا فرمانا بالکل صحیح ہے ہم کو جناب پرپورااطمینان ہے جو کچھ عرض کیاگیا وہ نہ اس غرض سے ہے کہ جناب پر اطمینان نہیں بلکہ محض اس وجہ سے ہے کہ ایک بات جو اپنے نزدیک مناسب اور ضروری معلوم ہوئی اس کو جنا ب کے کان میں ڈال دیا جیسے بعض وقت مریض طبیب سے کہتا ہے کہ مجھے یہ یہ شکایتیں ہیں مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بلا مسہل کے اس کا ازالہ نہ ہوگا اگر آپ کے نزدیک کوئی حرج نہ ہوتو