آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
وکیل صاحب بھی اس وقت وہاں پرموجود تھے میں نے ان کی طر ف اشارہ کرکے کہا کہ ان حضرت کی عنایت کا نتیجہ ہے، واقعہ معلوم ہونے پر سب نے اس کی سعی اور کوشش کی کہ میری شہادت نہ ہو، وکیل کو مجبورکیا کہ درخواست دو کہ ہم ان کی شہادت نہیں چاہتے چنانچہ طوعاً وکرہاً وکیل نے یہ درخواست دی اورحاکم سے زبانی یہ بھی کہہ دیا کہ وہ آبھی گئے ہیں ، حاکم نے کہا کہ ضابطہ سے توہم کچھ کہہ نہیں سکتے اس لئے کہ درخواست گذرچکی ہے اب مستثنیٰ کرنالازم ہے ہم کو کوئی حق ان کی شہادت لینے کا نہیں رہا،اور اگر وہ سمن پر بھی نہ آتے تو میں اس وقت بھی کوئی ضابطہ کی کارروائی نہ کرتا مگر مشورۃً کہتاہوں کہ اگر وہ اپنا بیان دیدیں تو مسلمانوں کا جھگڑا ہے شریعت کا مسئلہ ہے یہ معاملہ طے ہوجائے گابشرطیکہ وہ بخوشی اس کو منظور فرمالیں ، میں اسی بیان کے مطابق حکم نافذ کردوں گا ، مجھ سے کہا گیا کہ حاکم کا یہ خیال ہے، مجھ کو بھی خیال ہواکہ انگریز ہو کر اس کا یہ خیال ہے کہ مسلمانوں کا معاملہ ہے اور وہ پریشان ہیں تو میں تو بحمدللہ مسلمان ہوں میراتوفرض ہے کہ یہ معاملہ طے ہوجائے ،میں نے بیان دینے کو منظور کرلیا، اب حاکم کی تہذیب ملاحظہ ہو،حکم دیا کہ گواہوں کی طرح پکارانہ جائے اور پیادہ اجلاس تک نہ آئیں سواری میں آئیں جہاں تک ہماری سواری آتی ہے وہاں تک سواری آئے، کرسی منگائی جائے، غرض میں اجلاس پر پہونچا تو کٹہرہ کے اندر بلایاگیا کرسی آنے میں دیر ہوئی ،میں دونوں ہاتھ میز پر ٹیک کر کھڑاہوگیا،بیان شروع ہوا ، بیان کے وقت مجھ کو یہ معلوم ہورہا تھا کہ یہ مدرسہ ہے اجلاس نہیں ۔ ایک طالب علم سوال کررہا ہے میں جواب دے رہا ہوں ،تمام اجلاس کا کمرہ وکلاء اور بیرسٹروں سے پرہوگیا س لئے کہ اس کی شہرت ہوگئی تھی کہ اس کا بیان ہے یہ لوگ یہ دیکھنے آئے تھے کہ دیکھیں اجلاس میں کیابیان ہوتا ہے ۔