آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
سے التزام کر رکھا ہے کہ مصالح سہ دری کے لیے جوچیز بنی اس کے دام اپنے پاس سے دیتا ہوں چنانچہ پردے اور فرش یہ سب میرے ہی داموں کے ہیں اور اسی لیے باوجود ہزاروں روپیہ مسجد و مدرسہ میں صرف ہوجانے کے سہ دری میں کبھی لِپائی تک نہیں کرائی باوجود ضرورت کے، پس اگر سائبان میں مصالح سہ دری کا قصد ہوتا تو انشاء اللہ تعالیٰ اس کو اپنے پاس سے بناتا بلکہ اس سائبان سے سہ دری میں روشنی کسی قدر کم ہوجانے سے بعض لکھنے پڑھنے والوں کو ان کے کام میں ایک گونہ تکلف ہوگیا، اسی لیے بناء کے قبل سہ دری کے مصالح کا وسوسہ بھی نہیں ہوا بلکہ میں نے تو ان مصالح کے مشورہ پیش کئے جانے کے وقت تصریحاً ان کو رد کردیا کیونکہ بعض نے پیش بھی کیا تھا،البتہ اول مصلحت ذہن میں یہ آئی تھی کہ اس کے مقابل شمالی سہ دری کے سائبان کے بعد اگر یہ سائبان نہ ہوا تو تقابل کی خوشنمائی جاتی رہے گی لیکن اس کے ساتھ ہی اس مصلحت کو ناکافی سمجھ کر تردد تھا کہ اس کے بعد یہ مصلحت ذکر کی گئی اس کو البتہ معتد بہ مصلحت سمجھ کر کام جاری کردیا، رہا تو سیط امام کی مخالفت تو عذر حرو مطر میں عفو ہوسکتا ہے، خصوص غیر مکلفین کے لیے اس کی نظیر یہ ہے کہ صلوۃ خلف الصف منفرداً مکروہ ہے مگر اب فقہاء نے احتمال تجاذب عوام کے سبب اجازت دی ہے کہ اول صف میں سے کسی کو نہ کھینچے تنہا کھڑا ہوجائے تو اس عذر کو رافع کراہت قرار دیا، رہا یہ کہ مسجد کو غیر مسجد کے استعمال میں لانا گو کسی غرضِ مسجد کے لیے ہو جائز نہیں ، واقعی اگر ایسا قصداً کرے تو یہ حکم سمجھ میں آتا ہے لیکن اگر اس کا قصد نہ ہو گو کوئی خاص نفع حاصل ہوجاوے تو اس صورت میں اس کا عدم جواز سمجھ میں نہیں آتا اس کی نظیر یہ ہے کہ ایک شخص مسجد کی پشت پر مکان بناوے اور وہ جانب شرق میں اس لیے اپنی دیوار نہ بناوے کہ مسجد کی دیوار غربی پردہ کے لیے کافی ہے تو کیا اس کو ناجائز کہا جائے گا؟ حالانکہ مسجد کاایک جزو غیر مسجد کے کام میں آیا، یا اگر ایسے ہی