آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ہے کہ اگر مسجد میں شامیانہ کھڑا کیا جاوے اور اس کی طنابیں محلہ کے مکان میں باندھ دی جاویں تو بلاشبہ درست ہے یا فناء مسجد کی کسی عمارت میں باندھ دی جاویں تواس کا جواز اس سے بھی زیادہ ظاہر ہے اس لیے دیوار کے قصہ کو چھوڑ کر نفس مسئلہ کے متعلق عر ض کرتا ہوں ، سو عرفاً اس کا تابع سہ دری ہونا اور تابع بہ حکم متبوع ہوتا ہے سو میرے خیال میں اس عرف کی مزاحم نیت بانی کی ہوسکتی ہے اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر کوئی بانیٔ مسجد فرشِ مسجد کے حصۂ اخیرہ کو یہ سمجھ کر (کہ لوگ یہاں وضو کریں گے اور مسجد میں غسالہ کا گرانا جائز نہیں ) مسجد سے خارج رکھنے کی نیت کرے اور امتیاز کے لیے ہیئت تعمیر کی بھی کچھ بدل دے تو یقینا جائز ہے اور مساجد قدیمہ میں وضو کرنے کی یہی تاویل ہو بھی سکتی ہے ورنہ عامۂ مسلمین کا بے حرمتیٔ مساجد میں مبتلا ہونا لاز م آتا ہے حالانکہ حساً و صورۃً وہ حصہ تابع مسجد بلکہ جزو مسجد ہے اور تابع بحکم متبوع ہوتا ہے تو چاہئے کہ اس وضع عرفی کے اعتبار سے اس کو جزو مسجد کہہ کر اس پر وضو کو جائز نہ کہا جاوے، پس حکم جواز سے صاف ثابت ہوا کہ نیت بانی کی اس عرف کی مزاحم ہوجاوے گی پس یہاں بھی بانی ظلہ نے اس کو سہ دری کا جزو بنانے کی نیت نہیں کی اور یہ امر کہ منفعت جالسین سہ دری کو بھی ہوگی سو گوو قوعاً ایسا ہوگا مگر میرے نزدیک یہاں بھی اس وقوع پر نیت کو رجحان ہوگا اور نیت ہے منفعت مسجد کی، اس کی نظیر یہ ہے کہ تقلیل نز (نمی)کے لیے غرس اشجار کو مسجد میں جائز کہا گیا ہے اور دوسری اغراض کے لیے ناجائز حالانکہ وقوعاً دوسری اغراض بھی متحقق ہوں گی،رہا منفعت سہ دری کا اقویٰ اور اہم ہونا سو اس کا اندازہ پورا پورا حالت سابقہ کے تجربہ پر موقوف ہے کہ بچوں کو زیادہ تکلیف تھی، یا جالسین سہ دری کو ، تو واقعی سہ دری والوں کو کچھ بھی تکلیف نہ تھی، دھوپ تو وہاں آتی ہی نہ تھی برسات میں کبھی کبھی بوچھار آتی تھی تو سالہال سال سے اس کے لیے پردوں کا کافی انتظام چلاآتا تھا اور میں نے ہمیشہ