آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
دوسرا خیال یہ ہوا کہ بظاہر پھر بقاء مدرسہ کا دشوار ہے اور یہاں دین کا چرچا عوام و طلباء میں اس مدرسہ ہی کے سبب ہے ورنہ عوام میں دہریت خواص میں فلسفیت کا بڑا زور تھا حضور کے امر سے یہ دونوں اندیشے مرتفع ہوجائیں گے یعنی انشاء اللہ مجھ کو بھی دشواری پیش نہ آئے گی، یا اگر آئے گی تو اس کے برداشت کی قوت ہوجائے گی اور مدرسہ بھی حضور کی دعا سے چلتا رہے گا، اب جوارشاد ہو عمل میں لاؤں ۔ یہاں ربیع الاول و ربیع الآخر میں ان مجالس کی زیادہ کثرت ہے سو اگر شق ثالث کا حکم ہو تو اختتام صفر تک اس کا انتظام کرلوں ، حقوق وغیرہ ادا کروں مدرسہ کا کوئی مناسب انتظام بتدریج کردوں اور اب سے انشاء اللہ تعالیٰ کوئی نیا کام بلا استجازت حضرت والا کے وقوع میں نہ آئے گا اور اگر غلطی سے کوئی امر صادر ہوجائے تو بے تکلف احقر کو متنبہ کردیا جایا کرے، انشاء اللہ تعالیٰ امتثال امر میں کوتاہی نہ ہوگی۔ اب جواب عریضہ کے ساتھ اس امر سے بھی اطمینان فرمادیا جائے کہ اب تو حضور کو کسی قسم کی ناخوشی اس خادم سے نہیں ہے زیادہ حد ادب بخدمت مولوی محمد یحییٰ صاحب سلام مسنون۔ اشرف علی از کانپور: ۲۹؍محرم ۱۳۲۵ھ انتہی اس کے جواب میں حضرت قدس سرہ نے مولانا کے اس رجوع الی الحق کا شکریہ اور اس پرشاباش تحریر فرمائی اور جواب الجواب میں مولانا مدظلہ کی طرف سے شکریہ آکر کتابت ختم ہوئی۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ ماخوذ از تذکرۃ الرشید ۱؍۱۱۶ تا ۱۳۶