آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
صحابہ کا اس التزام پر بلاوجہ شرعی نہ تھا،اسی واسطے جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ امر پیش ہوا تو آپ نے صحابہ کو منع نہ فرمایا کہ اس امر پر اس کے ساتھ کیوں تکرار کرتے ہو بلکہ ان کو بلا کر پوچھا کہ ان کا کہنا کیوں نہیں مانتے ہو۔ پس اگر یہ امر ناجائز و موہم نہ ہوتا تو آپ صحابہ کو ہی منع کردیتے اور جب اس شخص نے اپنی محبت کا حال بیان کیا تو اس وقت آپ نے ان کو اجازت دی کہ فی حد نفسہ یہ امر جائز تھا، اور فضل اس صورۃ کا محقق تھا اور اس اجازت سے ایہام رفع ہوگیا تھا کیونکہ ایہام کا غیر مشروع ہونا سب صحابہ پر واضح ہوگیا ہے کیونکہ اس وقت کے آدمی ایسے عوام کے درجہ میں نہ تھے کہ باوجود اس واقعہ کے پھر اس کو واجب جانتے تھے اور پچھلوں کے واسطے یہ انکار صحابہ کا اور تقریر ان کے انکار کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہونا حجت ہوگیا تو اس واقعہ سے کچھ شبہ نہیں ہوسکتا۔ اس بحث کو براہین میں بسط سے لکھا ہے مگر آپ نے اس کتاب کو دیکھا ہی نہیں ، میں امید کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص براہین کو اول سے آخر تک بہ تدبر دیکھے تو باب بدعات میں اس کو کوئی شبہ نہ ہو کیونکہ اس کے مؤلف نے اس باب میں سعیٔ بلیغ کی ہے۔ جزاہ اﷲ خیر الجزاء۔ اگر آپ کو اب بھی کوئی شبہ ہو تو بندہ کی طرف سے اجازت ہے آپ اس کو ظاہرکریں اگر گنجائش جواب ہوگی انشاء اللہ جواب لکھوں گا ورنہ خیر! مگر تحریرات بندہ کو تدبر سے محفوظ کرکر اس کے بعد شبہ کرنا چاہئے، عوام علماء کو جو جرأت ارتکاب بدعت کی ہوئی تو کلام اہل حق کے عدم فہم سے ہوئی۔ فقط والسلام علیکم وعلی من لدیکم ۲۵؍ محرم ۱۳۱۵ھ