آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
مورث صفائی باطن جان کر اس کو اختیار کیا اور اسلامیین نے بھی اس وجہ سے اس کو اختیار کیا، جوگیوں کا فعل ہونے کی وجہ سے اس کو نہیں لیا بلکہ عقلاً اس کو نافع سمجھ کر اختیار کیا ہے۔ اسی واسطے قادریہ وچشتیہ کے یہاں چونکہ حرارت کی ضرورت ہے انہوں نے مؤکد اپنے اعمال میں اسے داخل کیا اورنقشبندیہ کے یہاں استحساناً کہ وہ حرارت کو ضروری نہیں جانتے مگر بعض درجہ میں بعض وجہ سے یعنی بوجہ استحکام ذکر اس کو مستحسن سمجھتے ہیں اور سہروردیہ کے ہاں چونکہ حرارت کی مطلقاً حاجت نہیں ہے لہٰذا ان کے یہاں ممنوع ہے بلکہ وصول کے واسطے عدم حبس کوشرط کرتے ہیں پس اس کا اختیار کرنا اس ضرورت کے واسطے ہے اور حبس خاصہ جوگ کا نہیں بلکہ یہ امر عقلی ہے کہ سب عقلاء اپنے اپنے موقعہ پر کرتے ہیں اس کو۔ اور نظیر اس کی شرع میں موجود ہے کہ تشہد میں رفع سبّابہ کرکے ادامۃ النظر الی السبابہ مشروع ہے اور غض بصر تحصیل خشوع کے واسطے ہے اور غض بصر غیر محارم سے رفع تشتت کے واسطے، پس اس میں تشبہ کا کیا امکان ہے یہ کوئی امر حسی نہیں اور نہ خواص کفار سے اور متضمن منافع ضروریہ کا، لہٰذا اس کے جواز میں کلام نہیں ہوسکتا اورانگرکھا ہر دو فریق میں شائع ہے اس میں تشبہ نہیں ہوسکتا البتہ پردہ کا فرق ہے سو اس میں تشبہ حرام ہے، علی ہذا رجعت قہقری خاصہ کسی قوم کا نہیں ہے۔ التزام مالایلزم بدون اعتقاد و جوب بھی ممنوع ہے اگر باصرار ہو، اور اگر امر مندوب پر دوام ہو بلا اصرار وہ جائز ہے اور مستحب ہے بشرطیکہ عوام کو ضرر نہ ہوا کرے، اور اگر عوام کے اعتقاد میں نقصان ڈالے تو وہ بھی مکروہ ہے، چنانچہ کتب فقہ میں سورۃ مستحبہ کا التزام مکروہ لکھا ہے۔ اور سورۃ قل ہوا اﷲ احد کی صورۃ میں آپ نے جو لکھا ہے خود ہی غور فرمائیں کہ جب اس صحابی نے اس پر التزام کیا اور جملہ صحابہ نے اس پر اعتراض کیا تو اعتراض