آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ذکر کی نہیں بلکہ امور منضمہ ہیں کہ بدون ان کے ذکر ولادت حاصل ہوسکتا ہے۔ سو ایک کو دوسرے پر قیاس کرنا درست نہیں مع ہذا اوپر کے کلیہ سے مباح منضم کا حال معلوم ہوچکا کہ جب تک اپنی حد پر ہوگا جائز، اور جب اپنی حد سے خارج ہوگا تو ناجائز اور امور مرکبہ میں اگر کوئی ایک جز ناجائز ہوجائے تو مجموعہ پر حکم عدم جواز کا ہوجاتا ہے آپ کو معلوم ہے کہ مرکب حلال و حرام سے حرام ہوتا ہے، یہ کلیہ فقہ کا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس تقریر سے آپ کی اس طویل تحریر کا جواب حاصل ہوگیا ہوگا جو آپ نے دربارۂ تقلید لکھی ہے لہٰذا زیادہ بسط کی حاجت نہیں ہے کیونکہ تم خود فہیم ہو … اس مسئلہ کے باب عقائد میں سے ہونے کا سبب دریافت فرمایا ہے۔ سو غورکیجئے کہ جو امور مبتدع اور محدث ہیں ان سب کو ناجائز اور موجب ظلمت عقیدہ کرنا واجب ہے پس یہ اعتقاد کلیات میں داخل ہے اگر چہ عمل ان کا عملیات سے ہے یہی وجہ ہے کہ کتب کلام میں جواز مسح خف و جواز اقتداء فاسق و جواز صلوۃ علی الفاسق وغیرہ بھی لکھتے ہیں کیونکہ گویہ اعمال ہیں مگر اعتقاد جواز و عدم جواز اعتقادیات میں داخل ہیں ۔ آپ نے تشبہ منہی عنہ کی تعریف دریافت کی ہے سو تشبہ امر مذموم میں مطلقاً حرام ہے اور جواہر غیر مذموم مباح ہے وہ اگر خاصہ کسی قوم کا ہو تو بھی ناجائز اور اگر بقصد تشبہ کوئی فعل کیا جائے تو وہ مطلقاً نادرست ہے، سوائے اس کے اور سب درست ہے۔ اور یہ بحث براہین قاطعہ میں بسط سے لکھی گئی ہے۔اس میں دیکھ لیں اور یہ بھی استطراداً لکھتا ہوں کہ شارح منیہ شرح کبیری منیہ میں جو دہلی میں چھپ گئی ہے، صلوۃ الرغائب کی کراہت کے جو وجوہ لکھے ہیں ان کو آپ دیکھیں کہ مجلس مولود کا حال اس پر قیاس کرنے سے معلوم ہوسکتا ہے۔ رہا حبسِ دم، سو وہ فی حد نفسہ مباح ہے اور عقلاً اس میں چند منافع ہیں جذب رطوبات اور جلب حرارت اور رفعِ تشتتِ خواطر، چنانچہ اطباء اس کو صراحۃً معالجۂ رطوبت قلبیہ میں تحریر کرتے ہیں اور ہرعاقل اس کو جان سکتا ہے لہٰذا جوگیوں نے