آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اوربوجہ دیگر نصوص مگر بعد ایک مدت کے تقلید غیر شخصی کے سبب مفاسد پیدا ہوئے کہ آدمی بسبب اس کے لاابالی اپنے دین سے ہوجاتا ہے اور اپنی ہوائے نفسانی کا اتباع اس میں گویا لازم ہے اور طعن علماء مجتہدین و صحابہ کرام اس کا ثمرہ ہیں ، ان امور کے سبب باہم نزاع بھی پیدا ہوتا ہے۔ اگر تم بغور دیکھو گے تو یہ سب امور تقلید غیر شخصی کے ثمرات نظر آئیں گے اور اس پر ان کا مرتب ہونا آپ پر واضح ہوجائے گا لہٰذا تقلید غیر شخصی اس بدنظمی کے سبب گویا ممنوع من اللہ تعالیٰ ہوگئی ہے پس ایسی حالت میں تقلید شخصی گویا فرض ہوگئی اس لیے کہ تقلید مامور بہ کی دونوع ہیں شخصی و غیر شخصی اور تقلید بمنزلہ جنس ہے اور مطلق کا وجود خارج میں بدون اپنے کسی فرد کے محال ہے پس جب غیر شخصی حرام ہوئی بوجہ لزوم مفاسد تو اب شخصی معین مامور بہ ہوگئی اور جو چیز کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے فرض ہو، اگر اس میں کچھ مفاسد پیدا ہوں اور اس کا حصول بدون اس ایک فرد کے ناممکن ہو تو وہ فرد حرام نہ ہوگا بلکہ ازالہ ان مفاسد کا اس سے واجب ہوگا اور اگر کسی مامور کی ایک نوع میں نقصان ہو اور دوسری نوع سالم اس نقصان سے ہو تو وہ ہی فرد خاصۃً مامور بہ بن جاتا ہے اور اس کے عوارض میں اگر کوئی نقصان ہو تو اس نقصان کا ترک کرنا لازم ہوگا نہ اس فرد کا، یہ حال و جوب تقلید شخصی کا ہے۔ اسی واسطے تقلید غیر شخصی کو فقہاء نے کتابوں میں منع لکھا ہے مگر جو عالم غیر شخصی کے سبب مبتلا ان مفاسد مذکورہ کا نہ ہو اور نہ اس کے سبب سے عوام میں ہیجان پیدا ہو اس کو تقلید غیر شخصی اب بھی جائز ہوگی مگر اتنا دیکھنا چاہئے کہ تقلید شخصی وغیر شخصی دونوع ہیں کہ شخصیت و غیر شخصیت دونوں فصل ہیں جنس تقلید کی کہ تقلید کا وجود بغیر ان فصول کے محال ہے کیونکہ یہ فصول ذاتیات میں داخل ہیں پس اس کا حال قیود مجلس میلاد سے جدا ہے بادی النظر میں یہ دونوں یکساں معلوم ہوتے ہیں ورنہ اگر غور کیا جائے تو واضح ہے کہ ذکر ولادت جدا شئ ہے اور فرش و فروش وروشنی وغیرہ قیود مبحوثہ کوئی فصل