آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
میں قبح لغیرہ ہوگا لیکن اگر اس کا فاعل زبان سے اصلاح عقیدۂ عوام کی بالاعلان کرتا رہے اس وقت بھی یہ قبح رہے گا یا نہیں اگر نہ رہے گا فبہا اور اگر رہے گا تو اس صورت میں بعض اعمال میں جو عوام میں شائع ہورہے ہیں اور ظاہراً ان کی عقیدت میں ان کی نسبت غلو و افراط بھی ہے اور خواص کے فعل بلکہ حکم سے اور قول سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے اور اس کا وجوب شرعی بھی کسی دلیل سے ثابت نہیں ہوا اور عوام بلکہ بعض خواص میں اس پر مفاسد بھی مرتب ہورہے ہیں ایسے اعمال میں شبہ واقع ہوگا مثلاً تقلید شخصی کہ عوام میں شائع ہورہی ہے اور وہ اس کو علماً وعملاً اس قدر ضروری سمجھتے ہیں کہ تارک تقلید سے گو کہ اس کے تمام عقائد موافق کتاب و سنت کے ہوں اس قدر بغض و نفرت رکھتے ہیں کہ تارکین صلوۃ، فجار و فساق سے بھی نہیں رکھتے۔ اور خواص کا عمل و فتویٰ وجوب اس کا مؤید ہے گو خود ان کو علی سبیل الفرض اتنا غلو نہ ہو اور دلیل ثبوت اس کی یہ مشہور ہے کہ ترک تقلید سے مخاصمت و منازعت ہوتی ہے جو کہ ممنوع ہے، سو مؤدی الی الممنوع ممنوع ہوگا پس اس کی ضد واجب ہوگی۔ مگر دیکھا جاتا ہے کہ بوجہ اختلاف آراء علماء و کثرت روایات مذہب واحد معین کے مقلدین میں بھی عوام کیا خواص میں مخاصمت ومنازعت واقع ہے اور غیر مقلدین میں بھی اتحاد و اتفاق پایا جاتا ہے۔ غرض اتفاق واختلاف دونوں جگہ ہے اور مفاسد کا ترتب یہ ہے کہ اکثر مقلدین عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قول مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے ان کے قلب میں انشراح و انبساط نہیں رہتا، بلکہ اوّل استنکار قلب میں پیدا ہوتا ہے پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے خواہ کتنی ہی بعید ہو، اور خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلہ میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود اپنے دل میں اس تاویل کی وقعت نہ ہو مگر نصرت مذہب کے لیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتہد کو چھوڑ کر حدیث صحیح صریح پر عمل