آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
کرلیں ، بعض سنن مختلف فیہا مثلاً آمین بالجہر وغیرہ پر حرب و ضرب کی نوبت آجاتی ہے اور قرون ثلثہ میں اس کا شیوع بھی نہ ہوا تھا بلکہ کیف مااتفق جس سے چاہا مسئلہ دریافت کرلیا، اگر چہ اس امر پر اجماع نقل کیا گیا ہے کہ مذاہب اربعہ کو چھوڑ کر مذہب خامس مستحدث کرنا جائز نہیں ، یعنی جو مسئلہ چار مذہبوں کے خلاف ہو اس پر عمل جائز نہیں کہ حق دائر ومنحصر ان چارمیں ہے مگر اس پر بھی کوئی دلیل نہیں ، کیونکہ اہل ظاہر ہر زمانہ میں رہے اور یہ بھی نہیں کہ سب اہل ہویٰ ہوں وہ اس اتفاق سے علیحدہ رہے دوسرے اگر اجماع ثابت بھی ہوجائے مگر تقلید شخصی پر تو کبھی اجماع بھی نہیں ہوا البتہ ایک واقعہ میں تلفیق کرنے کو منع لکھا ہے تاکہ اجماع مرکب کے خلاف نہ ہوجائے باوجود ان سب امور کے تقلید شخصی کا استحسان ووجوب مشہور و معمول ہے سو اس کا قبح کس طرح مرفوع ہوگا۔ دوسرا امر یہ کہ مسئلہ متکلم فیہا کے اعتقادی ہونے کی کیا صورت ہے بادی النظر میں تو فرعی عملی معلوم ہوتا ہے۔ تتمیم فائدہ کے لیے دو امر کی تحقیق اور منظور ہے کہ تشبہ منہی عنہ کی حد جامع و مانع کیا ہے بعض طرق ریاضت کے مثل حبس دم وغیرہ کے اہل ہند کے اعمال سے ہیں ، انگرکھا اہل ہند کے لباس سے ہے رجعت قہقری کعبہ سے وداع کے وقت اس میں تخصیص بھی ہے اور نسواں اہل ہند اپنے معاہدہ کے ساتھ کرتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ التزام مالا یلزم اعتقاد وجوب سے ممنوع ہوتا ہے یا بلاناغہ اس کے استمرار سے بھی گو کسی قدر صلابت و اہتمام کے ساتھ ہو التزام ممنوع ہوجاتا ہے صحابی ملتزم قراء ۃ قل ہو اﷲ احد سے ما حملک علی لزوم ہذہ السورۃ دریافت فرماکر نہی نہ فرمانا دلیل تقریری جواز لزوم عمل کی معلوم ہوتی ہے۔ ان شبہات کے صاف ہونے کے بعد امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ حضور کو تکلیف دینے کی نوبت نہ آوے گی، میں بہت ادب سے اس جرأت کی معافی چاہتا