آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
تنہائی میں بیٹھ کر سوچا کرتا ہوں کہ حق کیاہے میرے اختیار میں بجز طلب و توجہ الی اللہ وسوال علماء محققین اور کیا ہے آئندہ اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے اور توبہ توبہ میں کیا میرا شرح صدر کیا اور حضور کے جن کمالات کا مجھے اعتقاد ہے ان کے رو برو کشف کیا چیز ہے جس کی تصدیق میں مجھ کو تردد ہو، آپ کے ارشاد کو بدل و جان تصدیق کرتا ہوں مگر بمتضائے حدیث ’’انما شفاء العی السوال‘‘ اس وقت پھر کچھ عرض کرتا ہوں ۔ امر ثانی میں تو مجھ کو اجمالاً یوں اطمینان و کامل شفا ہوگئی کہ اعلی حضرت مدظلہم کی معرفت جس قدر حضور کو ہے ہم لوگوں کو قیامت تک بھی نصیب نہ ہوگی، اس میں کلام طویل کرنا خدام والا کو پریشان کرنا ہے اب صرف امر اول رہ گیا سو مقیس و مقیس علیہ میں واقعی یہ فرق تو ہے کہ مقیس علیہ کے عامل خواص میں بھی کم ہیں اگرچہ اس وقت مدعیوں نے عوام جہلاء میں بھی یہ قصہ پھیلا دیا ہے اور وہ بھی برے عقیدوں کے ساتھ مگر پھر بھی مقیس کے برابر شیوع نہیں ۔ اور یہ بات بھی ہے کہ عاملان مقیس میں متبعان سنت کم ہیں اگر چہ اس کی وجہ سوء تعلیم بیان کرنے والوں کی ہو، مگر خیر کچھ سہی قلت ضرور ہے اور یہ امر بھی یقینی ہے کہ جو امر خیر بذریعہ غیر مشروع حاصل ہو وہ امر خیر نہیں ہے اور جب قیود کا مشروع ہونا ثابت ہوجائے تو اس کا ثمرہ کچھ ہی ہو جائز الحصول نہ ہوگا اور یہ امر بھی ظاہر ہے کہ مجالس منکرہ بکثرت ہوتی ہیں اور منکر کی تائید اگر غیر منکر سے ہو تو وہ بھی سزا وار ترک ہے جب کہ عند الشرع فی نفسہ ضروری نہ ہو اب اس وقت دو امر قابل عرض ہیں ایک یہ کہ تقیید مطلق کی آیا مطلقاً ممنوع ہے یا جب کہ اس قید کو مرتبہ مطلق میں سمجھا جائے یعنی اگر مطلق واجب تھا تو قید کو بھی واجب سمجھا جائے اور اگر وہ مندوب موجب قرب تھا تو قید کو بھی مندوب اور موجب قرب سمجھا جائے در صورت اولیٰ تقییدات عادیہ میں شبہ ہوگا، اورصورت ثانیہ میں جب مطلق کو عبادت سمجھا اور قید کو بناء علی مصلحۃٍ مّا عادت سمجھا جائے تو فی نفسہ اس میں قبح نہ ہوگا ہاں اگر مؤدی بہ فساد عقیدۂ عوام ہو تو اس