آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ہے کہ کسی کی تحریر آپ کو کافی نہ ہوگی) کسی قدر موہم تکدر خاطرخدام والا ہوا، اعوذ باﷲ من غضب اﷲ وغضب رسول اﷲ وغضب ورثۃ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور اسی وجہ سے کچھ عرض کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی کئی روز اسی شش و پنج میں گذر گئے مگر آخر میں یہ رائے ہوئی کہ انما شفاء العی السؤال بے عرض کئے ہوئے کیسے دل صاف ہوگا۔ اوریہ خیال ہوا کہ اب تک اس شرم ہی شرم میں شبہات پیدا ہوگئے اگر پہلے سے تھوڑی جرأت کی جاتی تو یہ نوبت کا ہے کو آتی، اس وجہ سے پھر عرض کرنے کی ہمت ہوئی لیکن اس کے ساتھ ہی یہ التماس ہے کہ اگر میرا عرض کرنا خدام والا کو ذرہ برابر بھی موجب تکدر ہو تو بے تکلف صراحۃً فرمادیا جائے، میں انشاء اللہ بلا حجت اتباع کروں گا کیونکہ احقر اپنی نسبت حضور سے ایسی سمجھتا ہے کہ جیسے مقلد کی نسبت مجتہد سے اور اگر اجازت ہوگی تو عرض کرسکوں گا۔ احقر بہ قسم کہتا ہے کہ میرے قلب میں تو نہ اس عمل کی محبت ہے نہ اس کے ساتھ شغف بلکہ میں خود اس کے ترک کو افضل و اولیٰ سمجھتا ہوں چنانچہ اسی قسم کے امور کی بناء پر جلسہ ہائے دستار بندی کا اہتمام ترک کردیا گیا اور اس مضمون کو چھاپ کر شائع بھی کردیا مگر یہاں کے مجموعی حالات کے مقتضی ایسے ہیں کہ مخالفت کرنا سخت دشوار و موجب فتنہ ہے اور اس موقع پر ہر قسم کے لوگ مواعظ بھی سن لیتے ہیں ، منکرات کی اصلاح بھی اس طرح سے سہل ہے(اس لیے) شریک ہوجاتا تھا مگر جب ہی تک کہ اس کو جائز سمجھا جائے، اسی واسطے جو شبہات دل میں آئے معروض ہوئے اور ان سے مقصود محض حصول شفاء ہے کہ جس سے مجھ کو بفضلہ تعالیٰ جلدی امید کامیابی کی ہے اور متعصبین کو تو دل سے طلب حق مقصود نہیں ہوتی اس لیے ان کو عمر بھر حق کا پتہ نہیں لگتا، میں تو ہر نماز کے بعد دل سے دعا مانگتاہوں اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم الخ رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوْبَنَا الخ اَللّٰہُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقاًّ الخ۔