آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
تمام عالم کی تو سراسر منکر ہیں اور یہ فعل آپ کا ان کے لیے مؤید ہے پس یہ فعل مندوب آپ کا جب مغوی خلق ہو ا تو اس کے جواز کا کیسے حکم کیا جائے گا۔ اگر حق تعالیٰ نے نظر انصاف بخشی تو سب واضح ہے ورنہ تاویل و شبہات کو بہت کچھ گنجائش ہے ، مذاہب باطلہ کی اہل حق نے بہت کچھ تردید کی مگر قیامت تک بھی ان کے شبہات تمام نہ ہوں گے۔ فقط امر ثانی میں سنئے کہ حضرت اعلیٰ کا ارشاد پانچ چھ سال پہلے یہی تھا کہ ’’نفس ذکر جائز اور قیود بدعت‘‘۔ چنانچہ اس قسم کی تحریرات اب بھی موجود ہیں مگر بعد حضور مجوزین کے جو تحقیق ہوئی ہے خلاصہ اس کا ہفت مسئلہ میں آپ نے خود لکھا ہے کہ جناب حضرت مدظلہ مجوزین و مانعین ہر دو کی تصویب فرمارہے ہیں حالانکہ ایک مسئلہ جزئیہ عملیہ جو مجتہدین میں مختلف فیہ ہے عند اللہ حق اس میں ایک ہی ہے اور دوسرا غلط تو کشف سے اگر صاحب کشف حق ایک جانب کو حق جان لیوے تو دوسری جانب کو حق نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ کشفاً ایک ہی حق ہوتا ہے پس دونوں کی تصویب اور ایک کے ترجیح کے کیا معنی ؟سوائے اس کے کہ دونوں جانب علماء تصور فرماکر اس مسئلہ کو مختلف فیہ خیال فرمایا اور اس کو مسئلہ فرعیہ تصور فرمایا حالانکہ یہ مسئلہ اعتقادیہ ہے اگر چہ بادی النظر میں مسئلہ فرعیہ خیال کیا جاتا ہے اور مسئلہ اعتقادیہ میں حق ایک ہی ہوتا ہے ظاہر میں بھی مثل باطن کے۔ اسی واسطے اہل اہواء اگر چہ صدہا علماء ہیں ، ان کی کثرت پر نظر نہیں ہوتی اور مسئلہ مختلف فیہا نہیں کہا جاتا، اور حضرت اعلیٰ وجہ ترجیح کو خود ہی تحریر فرماتے ہیں آپ نے اپنے قلم سے لکھا ہے کہ ان قیود کو بدعت ہی نہیں سمجھا کیونکہ فرماتے ہیں کہ : ’’بدعت وہ ہے کہ غیر دین کو دین میں داخل کیا جائے‘‘ اور اس پر حدیث ’’من احدث فی امرنا ہذا‘‘ الخ کو دلیل لائے ہیں