آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
بوجہ غلبہ الحاد ودہریت یا کثرت جہل و غفلت یہ حال ہے کہ وعظ کے نام سے کوسوں بھاگتے ہیں اوران محافل میں یا بوجاہت میزبان یا اور کسی وجہ سے آکر فضائل و شمائل نبویہ اور اس ضمن میں عقائد ومسائل شرعیہ سن لیتے ہیں ۔ اس ذریعے سے میرے مشاہدہ میں بہت لوگ راہ حق پر آگئے، ورنہ شاید ان کی عمر گذر جاتی کہ کبھی اسلام کے اصول و فروع ان کے کان میں بھی نہ پڑتے اور اگر توقف سے قطع نظر کیا جائے تب بھی ترتب یقینا ثابت ہے سو جواز کے لیے یہ بھی کافی معلوم ہوتا ہے، چنانچہ حضور کا ارشاد ہے کہ اس زمانہ میں یہ اشغال بایں قیود اگرچہ جائز تھے مگر ان کی حاجت نہ تھی، انتہی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز ذریعہ تحصیل مامور بہ کا ہو خواہ وہ محتاج الیہ ہو یا نہ ہوجائز ہے سو ذریعہ ہونا اس کا تو بہت ظاہر ہے، سامعین کے قلوب اس وقت آپ کے احترام و عظمت وشوق و عشق و ادب وتوقیر سے مملو ومشحون ہیں ضرور نظر آتے ہیں ۔ البتہ اس میں جو امور مکروہ وحرام مخلوط ہوگئے ہیں وہ واجب الترک ہیں چنانچہ احقر ہمیشہ سے اس میں ساعی ہے اور رہا، بعض اصلاحیں جو کئی ماہ وعظ میں تفصیلاً بیان کی گئی تھیں بعض لوگوں نے اختصار کے ساتھ اسے چھاپ کر شائع بھی کردیا تھا ، ملاحظہ کے لیے مرسل ہیں ۔ بفضلہ تعالیٰ سب نے اس کو تسلیم کیا اور اکثروں نے عمل بھی کیا سو ایسے امور مکروہہ مقیس علیہ میں بھی بہت سے شامل ہوگئے ہیں جن کی اصلاح واجب ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اس کے متعلق بھی ایک رسالہ عنقریب لکھ کر حضور کے ملاحظہ میں بنظر اصلاح پیش کروں گا دعا کا امیدوار ہوں کیونکہ جہلاء صوفیہ کے سبب زندقہ کی بہت ترقی ہورہی ہے، سو اب تک مقیس و مقیس علیہ میں اچھی طرح سے فرق سمجھ میں نہیں آیا، براہین میں بدعت کی تعریف دیکھ لی، وہ ماشاء اللہ تعالیٰ بالکل مقبول و صحیح ہے، انشاء اللہ تعالیٰ تمام معروضات میں وہ پیش نظر رہا کرے گی۔