آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
دوسرا امر جو متعلق اتباع شیوخ کے ارشاد ہوا ہے الحمدﷲ کہ میرا اعتقاد کبھی اس کے برخلاف نہیں ہوا، امر ناجائز شیخ کے فرمانے سے کبھی جائز نہیں ہوسکتا۔ لاَ طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ پر ایمان وایقان ہے مگر اتنا ضرور میرے خیال میں ہے کہ اگر مختلف فیہ مسئلہ میں شیخ کامل کسی شق کا حکم کریں اس کا اتباع اقل درجہ جائز ہے تین شرط سے: اول یہ کہ اس مسئلہ میں دلائل وقواعد شرعیہ سے اختلاف کی گنجائش ہو، دوسرے یہ کہ شیخ گو عالم اصطلاحی نہ ہو مگر نورانیت قلب وشرح صدر و سلامت فہم رکھتا ہو جس سے یہ توقع ہو کہ اس میں ایک شق کے ترجیح دینے کی قابلیت ہے۔ بالخصوص جب کہ شیخ پر مسئلہ کے متعلق دونوں حکم متعارض پیش کئے جائیں اور دلائل جانبین کے بھی ذکر کردئیے جائیں اور پھر وہ ایک شق کو ترجیح دیں ۔ تیسرے یہ کہ مرید کو بھی خواہ دلیل سے یا تصرف شیخ سے شرح صدر ہوجائے سو احقر کے نزدیک مسئلہ متکلم فیہا میں یہ سب امور موجود ہیں یعنی بوجہ اس کے کہ ایک جم غفیر اس کے جواز کی طرف گئے ہیں مختلف فیہ ومجتہد فیہ معلوم ہوتا ہے، اور حضرت شیخ مدظلہ کے فہم میں اس قدر قوت ضرور سمجھ رہا ہوں کہ قولین متعارضین کے پیش ہونے کے بعد ایک جانب کو ترجیح دے سکیں اور مجوزین سے حضرت صاحب مدظلہ کو گو حسن ظن ہے مگر میں تو خود مشاہدہ کر آیا ہوں کہ ان میں سے کوئی بھی حضرت شیخ کی نظر میں خدام والا کے برابر مقبول و منظور و مبصر و محقق نہیں بارہا اس قسم کے تذکرے آئے۔ حضرت صاحب خدام والا کی نسبت ’’نعمت عظمیٰ وغنیمت کبریٰ اور ہندوستان میں عدیم النظیر‘‘ وغیرہ وغیرہ الفاظ ارشاد فرماتے ہیں اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ ’’خدام والا کے جمیع احکام وفتوی محض للہیت پر مبنی ہیں ‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کو خود اس مسئلہ میں شرح صدر ہے اور اس کو باصرار فرماتے ہیں اور دوسر ے قول پر انکار بھی نہیں فرماتے ہیں اور مخاطب کو حضرت