آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
تو محال ہے پس بجز اس کے کیا عرض کروں ۔ ع شکر نعمتہائے تو چند انکہ نعمتہائے تو بالخصوص کلمات محبت و شفقت آمیز سے جو کچھ مسرت و طمانینت ہوئی شاید عمر بھر بھی کبھی مجھ کو میسر نہیں ہوئی، اللہ تعالیٰ حضور کی ذات اقدس کو بایں افادہ ہم نیاز مندوں کے سر پر سلامت رکھے چونکہ حضور کے دربار سے مکرر استفسار کی اجازت عطا ہوئی ہے اس لیے بہت ادب سے پھر اپنے بعض خیالات بغرض استشفاء عرض کرتا ہوں ۔ امر اول میں ارشاد عالی اچھی طرح سمجھ میں آگیا مگر ابھی اس قدر شبہ باقی ہے کہ مقیس کو اگر ذریعہ حصول ایک امر ماموربہ کا کہا جائے تو ممکن ہے یعنی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر شریف کرنا اور آپ کی محبت و عظمت کا دل میں جگہ دینا ضرور مامور بہ ہے، زمان سابق میں بوجہ شدت ولہ وولع خود جابجا کا چرچا بھی رہتا تھا اور عظمت و محبت سے قلوب بھی لبریز تھے بعد چندے لوگوں کو ذہول ہوا، محدثین رحمہم اللہ تعالیٰ نے آپ کے اخلاق و شمائل و معجزات و فضائل جدا گانہ مدون کئے تاکہ اس کے مطالعہ سے وہ غرض حاصل ہو، پھر یہی مضامین بہ ہیئت اجتماعیہ منابر پر بیان کئے جانے لگے۔ پھر اہل ذوق نے اور کچھ قیود تخصیصات جن میں بعض سے سہولت عمل مقصود تھی، بعض سے ترغیب سامعین بعض سے فرح و سرور، بعض سے توقیرو تعظیم، اس ذکر وصاحب ذکر کی منظور تھی بڑھالی مگر مطمح نظر وہی حصول حب و تعظیم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم رہا گوکہ حصول حُب و عظمت کا توقف اس ہیئت خاصہ پر بمعنی ’’لولاہ لامتنع‘‘ عقلاً ثابت نہیں مگر یہ توقف مقیس علیہ میں بھی نہیں وہاں بھی توقف بمعنی ترتب ہے یا لولاہ ’’لامتنع عادۃً‘‘ سو اس کی گنجائش مقیس میں بھی ہے کیونکہ ترتب تو ظاہر ہے اور عند التامّل امتناع عادی ہی ہے گو اس قدر فرق بھی ہے کہ یہ امتناع مقیس علیہ میں باعتبار اکثر طبائع کے ہے اور مقیس میں باعتبار بعض طبائع کے، چنانچہ دیار و امصار شرقیہ کے ہیں