آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
لاَ طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ یہ امر بھی عام ہے اس سے کوئی مخصوص نہیں اور اگر کسی عالم نے اس کے خلاف کیا ہے تو بسبب فرط محبت کے اور جنونِ عشقیہ کے کیا ہے، سو وہ قابل اعتبار نہیں اور ہم لوگ اپنے آپ کو اس درجہ کا نہیں سمجھتے۔ ع بمے سجادہ رنگین کن اگر پیر مغاں گوید انہیں لوگوں کی شان میں ہے … اور شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ کہ مجلس سلطان المشائخ رحمۃ اللہ علیہ سے مجتنب رہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ’’فعل مشائخ سنت نباشد‘‘ آپ نے سنا ہوگا اور حضرت سلطان المشائخ کا اس پر یہ فرمانا کہ نصیر الدین درست کہتا ہے تصدیق تحریر بندہ کی کرتا ہے۔ وہ امر بہت باریک جو آپ نے لکھا اس کے جواب میں اسی قدر کافی ہے اسی واسطے مشائخ اپنے مریدین علماء سے مسائل دین کی تحقیق کرتے رہتے تھے اور کرتے رہے ہیں اور اپنی معلومات مخالفہ سے تائب ہوجاتے تھے۔ چنانچہ حضرت نے غذائے روح میں قصہ اس عارف کا جو غار میں رہتا تھا اور ٹکیہ موم کی آنکھ میں اور بتی نجاست کی ناک میں رکھتا تھا، لکھا ہے کہ انہوں نے مرید کے اس کہنے سے کہ اس صورت میں نماز نہیں ہوتی اپنی نمازوں کا اعادہ کیا اور اس مسئلہ کو قبول کیا اور خود بندہ کو یہ واقعات پیش آئے ہیں کہ جناب حضرت حاجی صاحب و جناب حافظ صاحب جو پہلے سے مولوی شیخ محمدصاحب سے مسائل دریافت کر کر ان پر عامل تھے، بندہ کے کہنے سے کتنے مسائل کے تارک ہوگئے اور واللہ! کہ حافظ صاحب نے یہ کلمہ میرے سامنے فرمایا کہ: ہم کو بہت سے مسائل میں ہمیشہ دھوکا رہا پس چونکہ بندہ ابتدائے صحبت سے خوگر وہ ایسی عادات کا ہے اور فرط محبت و عقیدت سے عاری، حضرت کے ارشاد کو جو بسبب تصدیق کرنے قول بعض مریدین بدفہم یا کم فہم کے اور مریدین خود غرض بدنام کنندہ پیران کے بحسن ظن خود صحیح سمجھ گئے ہیں سر دست قبول نہیں کرتا، بلکہ حضرت کو معذور جان