آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
محققہ قرآن و حدیث کو اس کے قول سے مطابق کرلیں کہ جس کو وہ غلط فرمادیں اس کو آپ غلط مان لیں اور جس کو صحیح کہیں اس کو صحیح رکھیں کہ یہ خیال سراسر باطل ہے۔ پس اگر کسی کا شیخ کوئی امر خلاف امر شرع کے فرمائے گا تو اس کا تسلیم کرنا جائز نہ ہوگا بلکہ خود شیخ کو ہدایت کرنا مرید پر واجب ہوگا کیونکہ ہر دو کا حق ہر دو پر ہے اور شیوخ معصوم نہیں ہوتے اور جب تک شیخ کسی مسئلے کو جو بظاہر خلاف شرع ہو بدلائل شرعیہ قطعیہ ذہن نشین نہ کردے مرید کو اس کا قبول کرنا ہرگز روا نہیں ، اس کی نظیریں احادیث سے بکثرت ملتی ہیں ایک نظیر بیان کرتا ہوں اس پر غور کیجئے۔ جب واقعہ مسیلمہ میں قرّاء بہت سے شہید ہوگئے اور حضرت عمرؓ کو اندیشہ ذہاب کثیر من القرآن کا ہوا انہوں نے حضرت ابو بکر صدیق کو جمع قرآن کا مشورہ دیا، حضرت ابو بکر صدیق نے بعد مباحثہ بسیار قول حضرت عمر کو قبول فرمایا اور اس کا استحسان ان کے ذہن نشین ہوگیا اور دونوں کی رائے متفق ہوگئی اور سنیت بلکہ وجوب مقرر ہوگیا۔ اور پھر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اس امر کے واسطے فرمایا تو باوجود اس بات کے کہ شیخینؓ زید بن ثابت سے علم و فضل میں بہت زیادہ تھے، اور صحبت ان کی بہ نسبت زید کے طویل تھی اور ان کے باب میں حکم عام شارع سے ہوچکا تھا کہ: اقْتَدُوْا بِالَّذَیْنِ مِنْ بَعْدِیْ اَبَابَکْر وَعُمَر۔ (رواہ البخاری) مع ہذا زید نے چونکہ اس امر کو محدث سمجھا تو یہی فرمایا کَیْفَ تَفْعَلُوْنَ شَیْئًا لَّمْ یَفْعَلْہُ رَسُوْلُ اﷲ صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اور ان کے کہنے کو ہرگز تسلیم نہ کیا کیونکہ ایجاد بدعت ان کے نزدیک سخت معیوب تھا اور شیخین کو معصوم نہ جانتے تھے لہٰذا مناظرہ شروع کردیا مگر جس وقت حضرات شیخین نے ان کو سمجھا دیا اور سنیت اس فعل کی زید کو ثابت ہوگئی تو اس وقت بدل وجان قبول کرکے اس کی تعمیل میں مصروف ہوگئے، بخاری کو تم نے خود پڑھا یا اور دیکھا ہے زیادہ کیا لکھوں ۔ پس ایسا بدست شیخ ہوجانا کہ مامور و منہی کی کچھ تمیز نہ رہے یہ اہل علم کا کام نہیں ،