آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
تیر اور نیزہ اور سیف بلکہ پتھر بھی کافی تھا، ملاحظۂ احادیث سے آپ کو معلوم ہے اور اس زمانہ میں استعمال ان آلات کا سراسر مضر اور ایجاد توپ تار، اور پٹرول کا واجب ہوگیا کیونکہ تحصیل اعلاء کلمۃ اللہ بدون اس کے محال ، اب ان ایجادات کو نہ کوئی بدعت کہہ سکے اور نہ تشبہ بہ کفار کہہ کر حرام بناسکے بلکہ اس کو فرض اور واجب اور مامور بہ کہنا ہوگا کیونکہ تحصیل مقصود اس پر موقوف سی ہوگئی ہے پس یہ بھی مامور بہ ہوگیا۔ علی ہذا القیاس اشغال کا حال ہے میں تعجب کرتا ہوں کہ آپ نے کیسے اشغال کو مقیس علیہ بنالیا، اس لیے کہ مقیس علیہ ضروری اور مامور بہ اور مقیس نہایت سے نہایت مباح اور کسی وجہ سے موقوف علیہ کسی امر مندوب کا بھی نہیں بلکہ اسی میں بعض امور حرام اور مکروہ۔ پھر اس کو اس پر قیاس کرنا آپ جیسے آدمی سے کس طرح موجب حیرانی نہ ہو، لہٰذا آپ کے اس قیاس کویا اس پر حمل کیا جائے کہ آپ نے بدعت کے مفہوم کو ہنوز سمجھا ہی نہیں ۔ کاش ! ’’ایضاح الحق الصریح‘‘ آپ دیکھ لیتے یا براہین قاطعہ کو ملاحظہ فرماتے یا یہ کہ تسویل نفس و شیطان ہوئی اس پر آپ بدون غور عامل ہوگئے، اب امید کرتا ہوں کہ آپ غور فرمائیں گے تو اپنی غلطی پرمطلع و متنبہ ہوجائیں گے۔ اور امر ثانی کے باب میں اگرچہ سردست آپ کو بوجہ فرط عقیدت و محبت کے ناگوار گذرے اور اس بندہ کو گستاخ و بے ادب تصور کرو مگر حق کہہ دینے سے مجھے یہ امر مانع نہیں وہ یہ ہے کہ بندہ جو حضرت شیخ سے بیعت ہوا ہے اور جتنے اہل علم ذی فہم قدیم سے بیعت ہوتے رہتے تھے اور ہوتے رہے ہیں تو باوجود علم غیر عالم سے جو بیعت ہوئے تو اس خیال سے بیعت ہوئے اور ہوتے ہیں کہ جو کچھ استاذوں سے کتب دینیہ میں انہوں نے پڑھا اور علم حاصل کیا کسی شیخ عارف سے اس علم کو علم الیقین بنالیویں تاکہ عمل کرنا نفس کو اس علم پر سہل ہوجائے اور معلوم مشہود بن جائے، علی حسب استعداد، اس واسطے کوئی بیعت نہیں ہوا اور ہوتا کہ جو کچھ ہم نے پڑھا ہے اس کے صحت و سقم کو کسی شیخ غیر عالم سے پڑتال لیں اور احکام