آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اگر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ہر آیت و ہر حدیث سے وہی ثابت ہوتا ہے پس جس چیز کا مامور بہ ہونا اس درجہ کو ثابت ہے اس کی تفصیل کے واسطے جو طریقہ مشخص کیا جاوے گا وہ بھی مامور بہ ہوگا اور ہر زمانہ و ہروقت میں بعض مؤکد ہوجائے گا اور بعض غیر مؤکد۔ لہٰذا ایک زمانہ میں صوم وصلوۃ و قرآن و اذکار مذکورہ احادیث اس مامور بہ کے تحصیل کے واسطے کافی ووافی تھے، اس زمانہ میں یہ اشغال بایں قیود اگر چہ جائز تھے مگر ان کی حاجت نہ تھی، بعد چند طبقات کے جو رنگ نسبت کا دوسری طرح پر بدلا اور طبائع اس اہل طبقہ کی بسبب بُعد زماں خیریت نشان کے دوسرے ڈھنگ پر آگئیں تو یہ اوراد اس زمانہ کے اگرچہ تحصیل مقصود کرسکتے تھے،مگر بدقت و پریشانی لہٰذا طبیبان باطن نے کچھ اس میں قیود بڑھائیں اور کمی و زیادتی اذکار کی کی، گویا کہ حصول مقصود ان قیود پر موقوف ہوگیا تھا لہٰذا ایجاد بدعت نہ ہوا، بلکہ اگر کوئی ضروری کہہ دے تو بجاہے کیونکہ حصول مقصود بغیر اس کے دشوار ہوا اور وہ مقصود مامور بہ تھا اس کا حاصل کرنا بمرتبہ خود ضروری تھا بس گویا یہ قیود مامور بہ ہوئیں نہ کہ بدعت۔ بعد اس کے دوسرے طبقہ میں اس طرح رنگ بدلا اور وہاں بھی دوبارہ تجدید کی حاجت ہوئی ثم وثم … جیسا کہ طبیب موسم سرما میں ایک علاج کرتا ہے کہ موسم گرما میں وہ علاج مفید نہیں ہوتا، بلکہ حصول صحت کو بعض اوقات مضر ہوجاتا ہے اور باعتبار اختلاف زمانہ کے تدبیر علاج اول دوسرے وقت میں بدل جاتی ہے جو معالجات کہ سوبرس پہلے ہمارے ملک میں تھے، اور جو مطب کہ کتب سابقین میں لکھے ہوئے ہیں اب ہرگز کافی نہیں ان کا بدل ڈالنا کتب طب کے اصل قواعد کے موافق ہے اگر چہ علاج جزوی کے مخالف ہو پس اس کو فی الحقیقت ایجاد نہ کہا جائے گا، بلکہ تعمیل اصل اصول کی قرار دی جائے گی۔ دوسری نظیر اعلاء کلمۃ اللہ ہے جس کو جہاد کہتے ہیں بتامل دیکھو کہ طبقہ اولی میں