آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
لاکھ ضرورتیں بھی ہوتیں سب پر خاک ڈالتا۔ بفضلہ تعالیٰ بہت سے منافع مالیہ کو اسی وجہ سے خیر باد کہہ چکاہوں ، توسع رائے کے اسباب اوپر معروض ہوچکے ہیں بہرحال میرے خیال میں یہ امور خلاف اولیٰ ضرور ہیں مگر بمصالح دینیہ ان کے فعل میں گنجائش نظر آتی ہے اور عوام کی اصلاح بھی ساتھ ساتھ واجب سمجھتا ہوں اور اپنی وسعت کے موافق کرتا بھی رہتا ہوں ۔ اور اس کے ساتھ ایک خیال اور بھی ہوا اور وہ بہت نازک ہے وہ یہ کہ اگر یہ شرکت بالکل اللہ ورسول کی رضا کے خلاف ہے تو حضرت قبلہ کے صریح ارشاد کی کیا تاویل کی جائے بلکہ اہل علم کے اعتقاد و تعظیم و تعلق و ارادت سے عوام کا ایہام ہے۔ اس سے ہنڈپھر کر یہی اطمینان ہوتا ہے کہ شرعاً گنجائش ضرور ہے۔ یہ خلاصہ میرے خیالات و حالات کا تھا اب حضور جیسا ارشاد فرمائیں اگر اس میں بالکل گنجائش نہیں ہے، تو میں آج ہی تعلق ملازمت کو قطع کردوں گا رازق حقیقی سبحانہ تعالیٰ ہے قیامت میں کوئی کام نہ آئے گا۔ مگر اس صورت میں حضرت قبلہ و کعبہ کے ساتھ کیسا تعلق رکھنا چاہئے اور حضرت کے قول و فعل کو کیا سمجھنا چاہئے اور اگر تھوڑی بہت گنجائش ہو خواہ عموماً یا خاص میری حالت جزئی کے مصلحت سے تو اس گنجائش سے تجاوز نہ کیا جائے گا اور اگر اس کے کتمان کا حکم ہوگا تو انشاء اللہ تعالیٰ عمر بھر اس کا انتساب حضور حضرت کی طرف میری زبان و قلم سے نہ نکلے گا۔ غرض جس طرح حضور کا ارشاد ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ بسر و چشم منظور ہوگا اور شاید کچھ شبہ پیدا ہو تو بے تکلف اس کے مکرر پیش کردینے کی اجازت کا خواہاں ہوں ۔ اشرف علی