آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
چونکہ ہم کو انکار قلب کا علم ظاہر (کے ذریعہ) سے ہوتاہے یعنی زبان سے اس واسطے زبان سے انکار کرنے والے کو کافر کہہ دیتے ہیں تواس سے ثابت ہوگیا کہ ہم حکم اسی بات پر لگاسکتے ہیں جو ظاہر ہو اور زبان سے کہی جائے ،پس جب ایک شخص زبان سے اسلام ظاہر کرتاہے اس کو ہم کافر کیسے کہہ سکتے ہیں ؟ اس کے تویہ معنی ہوں گے کہ گویہ اسلام ظاہر کرتاہے مگر ہم کو کسی اور ذریعہ سے دل کا حال معلوم ہوگیاہے کہ اس میں کفر ہے سووہ کون ساذریعہ ہے ؟ ہمارے پاس وحی نہیں آتی جس سے دل کاحال معلوم ہوجائے اور نہ کسی صاحب وحی نے ہم کو بتلایاجیسا کہ حضرت حذیفہؓ کو بتلادیا تھا پھردل پر کیسے حکم لگایاجاسکتا ہے ،یہ سخت غلطی ہے اس میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔۱؎ یادرکھو !جو شخص اسلام کا دعویٰ کرتا ہو یعنی زبان سے مسلمان ہونے کا اقرار کرتاہو تووہ اس وقت تک کافر نہیں ہوتا جب تک کہ کسی ایسی بات کا انکارنہ کرے جوضروریات دین میں سے ہو، ان میں کسی کا انکار کرے تب تو البتہ اسلام سے خروج ہوتاہے اور جوضروریات کا انکار نہ کرے ہاں عمل میں سستی کرتا ہے تو وہ گنہ گارہے اس پر ایسا سخت حکم نہیں لگایاجاسکتا کہ یہ بالکل اسلام سے خارج ہوگیا، آخر کفر سے پہلے گناہ کامرتبہ بھی تو ہے اور اس میں دودرجہ ہیں ،صغیرہ اور کبیرہ ،اہل حق کا عقیدہ ہے کہ گناہ کبیرہ سے بھی خروج عن الاسلام نہیں ہوتا اور اس پر خلودفی النار نہ ہوگا ،اور یہ بھی عقیدہ ہے کہ شفاعت اہل کبائر کو پہنچے گی۔ آج کل جن مسائل میں اختلاف ہے ان میں اکثر جانبین میں گنجائش ہے توکوئی فریق اپنے مقابل پر کوئی قطعی حکم کیسے لگاسکتا ہے اور حکم بھی کون سا،کفر کا ،لطف یہ ہے کہ ان مسائل میں اختلاف کفر وعدم کفرکا ہے ہی نہیں جو کچھ اختلاف ہے وہ سنت اور بدعت کا ہے ، ایک فریق اس کو سنت کہتا ہے او دوسرااس کوبدعت اور معصیت کہتا ہے ابھی تو خود معصیت وعدم معصیت ہی میں اختلاف ہے کفر وعدم کفرکاکیاذکر ؟ اگر سنت ------------------------------ ۱؎ الاسلام الحقیقی ص۴۵۴