آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
کالمسلمین میں تغیر ہوگیا۔ چنانچہ آیت وَلاَتُصَلِّ عَلیٰ اَحَدٍمِّنْہُمْ مَاتَ اَبَدًاوَّلاَتَقُمْ عَلیٰ قَبْرِہٖ مصرح ہے۔ ۷۔جوکافراصول اسلامیہ کا بھی مقرہو،اسکے حکم بالاسلام کے لئے محض تلفظ بکلمتی الشہادہ کافی نہیں جب تک اپنی کفریات سے تبری کا اعلان نہ کردے کمافی ردالمحتار احکام المرتد تحت قولہ الدر المختار لان التلفظ بہا صارعلامۃ علی الاسلام مانصہ افادبقولہ صار الی ان ما کان فی زمن الامام محمدتغیر لانہم فی زمنہ ماکانوایتمتعون عن النطق بہا فلم تکن علامۃ الاسلام فلذا شرطوامعہاالتبری لہا فی زمن قاری الہدایۃ فقد صارت علامۃ الاسلام لانہ لایاتی بہاالا المسلم۔ ۸۔ جس شخص کا کفر ثابت ہوجائے اس کے اقوال وافعال محتملہ للکفر والاسلام میں تاویل کرنے سے اس کا کفر مانع نہ ہوگا ،مثلاً دیوالی سے بہی کھاتہ کاشروع کرنا یامقتداؤں کو لفط خداوند سے خطاب کرنا ،ان سے دعامانگنا ،ان کا صدور اگر مسلمان سے ہوتا تو اس میں تاویل کرکے مباح یامعصیت پر محمول کیا جاتا، مگر جب اس کا صدور کافر سے ہے توتاویل کی ضرورت نہیں ،فی مختصرالمعانی بحث الاسناد مانصہ وقولنا فی التعریف بتاویل یخرج نحومامرمن قول الجاہل انبت الربیع البقل الخ وفیہ بحث وجوب القرینۃ واسناد المجازی مانصہ عطف علی الاستحالۃ ای وکصد ورعن الموحد فی مثل الشاب الصغیر پس کسی مصلحتِ دنیوی کے سبب کافر کو مسلمان کہنا اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا سامعاملہ کرنا ہرگزمناسب نہیں کیونکہ جب کفریات کے ہوتے ہوئے کسی کومسلمان کہاجائے گا تو ناواقف مسلمانوں کی نظر میں ان کفریات کا قبح خفیف ہوجائے گا اور وہ آسانی سے ایسے گمراہوں کے شکار ہو سکیں گے تو کافروں کو اسلام میں داخل کہنے کا انجام یہ ہوگا کہ بہت سے مسلمان اسلام سے خارج ہوجاویں گے، کیاکوئی مصلحت اس مفسدہ کی مقاومت