آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ذمہ واجب ہی ہوگیا نعوذباللہ منہ، خدا بچاوے شرک سے۔۱؎ (۵۰)ایک جگہ تقریب میں پہونچا توایک شخص نے نواب صدیق حسن خاں صاحب کی ایک کتاب میں تقلید کے خلاف ایک مضمون دکھلایا اور پوچھا کہ آپ کی اس کے متعلق کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ آپ کو نواب صاحب کے لکھے ہوئے مضمون میں کچھ تردد ہے یانہیں ؟ وہ آدمی ہوشیار تھا میری غرض سمجھ گیا اور خاموش ہوگیا۔۲؎ (۵۱)مکہ میں مجھے ایک جاہل نے امر بالمعروف کیا کہ تم عمامہ کیوں نہیں باندھتے یہ سنت ہے؟ میں نے کہا تم لنگی کیوں نہیں باندھتے یہ بھی سنت ہے؟ سوچ کرکہنے لگے میں بوڑھا ہوں لنگی میرے جسم پر ٹھہرتی نہیں ،میں نے کہا میں جوان ہوں ،عمامہ سے گرمی لگتی ہے اس پر بہت جھلاّئے، کہنے لگے خداکرے تمہارے دماغ میں اور گرمی بڑھ جائے ۔۳؎ (۵۲)میں نے ایک مرتبہ شریعت کا مسئلہ عام مجمع میں ظاہر کردیا لیکن ان ظالموں نے بجائے قدرکرنے کے اعتراض شروع کردیا کہ ہم نے تو کبھی سناہی نہ تھا ،یہ خوب جاہلوں نے سیکھ لیا ہے کہ ہم نے کبھی نہیں سنا، ارے کیا سب مسئلے تمہارے سننے میں آنا ضروری ہیں ؟ اگر سب مسئلے سن لیتے توتم بھی عالم نہ ہوجاتے۔۴؎ (۵۳)فرمایا کہ مجھ کو ڈاک کا بڑا اہتمام ہے کہ روز کے روز فارغ ہوجاؤں اس میں طرفین کو راحت ہوتی ہے، ادھر تو میں فارغ مجھے راحت ،ادھر خط کا جواب پہنچ جائے اس کو راحت ،انتظار کی تکلیف نہ ہو ، دوردراز سے خطوط آتے ہیں ، جن میں نئی نئی ضروریات ہوتی ہیں اس لئے روزانہ ڈاک نمٹادیتاہوں ،اپنی طرف سے اس کا انتظام رکھتاہوں کہ دوسرے کو تکلیف نہ ہو اور انتظارکی تکلیف تومشہور ہی ہے۔ ۵؎ ------------------------------ ۱؎ وعظ شفاء العی ص۲۲۵ ۲؎ مجالس حکیم الامت ص۱۹۹ ۳؎ الحدود والقیودص۳۵ ۴؎ التبلیغ ص۶۱ج۲۰ ۵؎ کمالات اشرفیہ ص۳۹۰