آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
(۴۸) ایک صاحب نے استفتاء پیش کرکے عرض کیا کہ اگلے جمعہ کواس کا جواب لے لیاجائے گا اس لئے کہ جلدی جواب ہونہیں سکتا فرمایا کہ یہ صحیح ہے ،مگر اگلے جمعہ تک یہ کاغذات امانت کس کے پاس رہے گا ،کیونکہ کام کی کثرت کی وجہ سے مجھ پر اس کا بار ہوتا ہے ، عرض کیا کہ حضرت کی سہولت کے لئے ایسا عرض کیاگیا، فرمایا: یہ بھی صحیح ہے مگر جس وقت لکھ کرتیارہوجائے آخر کس کو دوں تاکہ امانت کا بار نہ رہے، عرض کیا کہ حافظ صاحب کو دیدیں فرمایا کہ آپ یہی بات ان سے کہلوادیں کیاخبران کوقبول بھی ہے یانہیں اگر آکر وہ مجھے کہہ دیں میں ان کو دیدوں گا حافظ صاحب نے آکر عرض کیا کہ حضرت جواب تحریر فرما کر مجھ کو دیدیاجائے، فرمایا: دیکھئے میں اس قدر احتیاط کرتاہوں کہ براہ راست ان سے کہنا نہیں چاہا شاید میرے اثر سے عذرنہ کرتے ،انتظام ایسا ہونا چاہئے کہ کسی کو تکلیف نہ ہو، اب حافظ صاحب نے ان کے کہنے سے بار اٹھایااگر میں خود ان کے سپرد کرتا تو اس وقت میری طرف سے سمجھا جاتا ،اس صورت میں ان کا جی چاہتایانہ چاہتا قبول کرتے مجھ کو اتنا بھی کسی پر بار ڈالنا گوارانہیں ، حاصل انتظام کایہ ہے کہ نہ اپنی طرف سے کسی دوسرے پر بار ہو،نہ دوسرے کا اپنے اوپر بلا ضرورت بار ہو ، اس قدر تومیں رعایتیں کرتاہوں اور پھر بھی سخت مشہور کیا جاتاہوں ۔۲؎ (۴۹)مجھے ایک شخص نے خط لکھا کہ میں دواکی دکان کروں یا بانوں کی؟ میں نے جواب میں لکھا کہ میرا باپ نہ عطارتھا نہ کھٹ بنا جو میں اس میں مشورہ دوں ،ہم سیتو محبوب حقیقی کے راضی کرنے کا طریقہ دریافت کرو،بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ بزرگ صاحب تجربہ نہیں رکھتے مگر الہام سے بتلادیں گے اوروہ بالکل صحیح ہوگا ،سویادرکھنا چاہئے کہ اول تو الہام اختیاری نہیں اور پھر ہمیشہ نہیں ہوتا۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ جوان کے منہ سے نکلے گا اس کا پورا کرنا اللہ تعالیٰ کے ------------------------------ ۱؎ ۲؎ کمالات اشرفیہ: ص۳۹۰ ج:۲