آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
تو اس طرح کا سوال جواب کے قابل ہوتا ،باقی اور جگہ سے تو یہی فتویٰ جاتا کہ نکاح نہیں ٹوٹا جس کا اثر یہ ہوتا کہ صاحب واقعہ بالکل بے فکر (اور دلیر)ہوجاتا۔۱؎ (۴۳)ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت فلاں شخص نے حضرت کے پاس ایک سوال بھیجا تھا کہ ایک شخص ہے وہ تمام نیک کام کرتا ہے صرف رسالت کو تسلیم نہیں کرتا اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟حضرت نے جواب میں لکھا تھا کہ قرآن پاک میں ہے محمدرسول اللّٰہ تو یہ شخص خدا کو نعوذ باللہ جھوٹا سمجھتا ہے اس لئے کافر ہے اور (ایسے شخص کا )کوئی عمل اور نیکی مقبول نہیں ۔۲؎ (۴۴)کاندھلہ کے قریب ایک گاؤں ہے اس میں ایک سنّی عورت کا انتقال ہوا،بڑی مالدارعورت تھی ، خاوند شیعی تھا تو اس عورت کے بھائی نے چاہا کہ سب ترکہ مجھ کو ملے، اس کے خاوند کو کچھ نہ ملے ،تواس کی یہ تدبیر سوچی کہ مجھ کو ایک استفتاء لکھ کر دیا اور حکم شرعی اس طرح پوچھا کہ سنی عورت کا شیعی مرد سے نکاح توجائز نہیں ، جب نکاح نہیں ہوا تواس عورت کی میراث بھی اس مرد کو نہ ملے گی ، میں نے کہا کہ کیایہ مسئلہ آج معلوم ہوا ہے پہلے سے کہاں سورہے تھے، جب بہن نے نکاح کیا تھا اس وقت نہ بولے اور ساری عمر بہن کے لئے حرام کوگواراکرتے رہے ،شرم نہیں آتی، دنیا کی غرض سے تویہ بات نکالی اور دین کا کچھ خیال نہ کیا ،یہ نفس ایسا استاد ہے،دوسری بات میں نے یہ کہی کہ اگر اسی واقعہ میں مردمالدار ہوتا اورپہلے مرجاتا اور تم کو یہ امید ہوتی کہ پھر عورت کے مرنے پر میں مستحق ہوں گا توایمان سے کہو کیا اس وقت بھی اس نکاح کو ناجائز قراردے کر عورت کو میراث سے محروم کرتے جس کا نتیجہ تمہارا حِرمان ہوتا ؟ بس یہ ہیں وہ باتیں جن کی وجہ سے لوگ مجھ سے ناراض ہیں ، مگر ہوا کریں ناراض ،مجھ کو ان کی ناراضی یا خوشی سے لینا ہی کیا ہے ، اللہ تعالیٰ راضی ہیں پھر چاہے سارا عالم ناخوش اور ناراض ------------------------------ ۱؎ ملفوظات حکیم الامت ص ۴۱ ج۴ قسط ۲ ۔ ۲؎ القول الجلیل ص۵۱