آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ہوتا ہے پھر وہ مترجم قرآن میرے پاس لائے اور آیت فَاغْسِلُوا الخ دکھلائی۔ میں بہت پریشان ہوا کہ اس شکال کا جواب تو نحوی قاعدہ پر موقوف ہے جس کو یہ سمجھ ہی نہیں سکتے، آخر میں نے ان سے کہا کہ جس کلام کا یہ ترجمہ ہے یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ کلام اللہ ہے؟ بولے علماء کے کہنے سے میں نے کہا افسوس! یا تو علماء اتنے ایماندار ہیں کہ اگر وہ ایک عربی عبارت کو کلام اللہ کہہ دیں تو سچے اور یاتو اتنے بے ایمان کہ اگر وہ ایک فعل کو مضمر کہہ دیں تو وہ جھوٹے، اس پر وہ چپ ہوگئے۔۲؎ (۴۰)ایک شخص کا خط آیا تھا لکھا تھا کہ چھوٹی قومیں کیوں ذلیل ہیں ؟ میں نے لکھا کہ دنیا میں یاآخرت میں ؟جواب آیا کہ شافی جواب نہ ملا اور کچھ اعتراض بھی لکھے تھے، میں نے لکھ دیا کہ جہاں سے شفاء ہو وہاں سے سوال کرلو،بیہودہ اپنا تابع بنانا چاہتے ہیں ۔ (۴۱) میں مسائل کے جواب میں بھی سائل کی حیثیت کی موافق جواب دیتا ہوں ، گواس سوال کا جواب نہ ہو ،چنانچہ ایک بار ایک صاحب نے مجھ سے مسئلہ پوچھا تھا کہ ایک شخص کا انتقال ہوا، ایک بھتیجا ایک بھتیجی چھوڑے، میراث کا کیاحکم ہے؟میں نے جواب دیا کہ بھتیجا میراث پائے گا بھتیجی کو کچھ نہ ملے گا ،اس پر اس نے سوال کیا کہ اس کی کیاوجہ ؟وہ پٹواری تھے، میں نے کہا کہ بستہ پٹوار گیری کا تو طاق میں رکھو اور طالب علمی شروع کرو، تین برس کے بعد اس کو سمجھنے کی قابلیت پیدا ہوگی کہ اس کی کیاوجہ ،اب بتلائیے ایسے بدفہم اور بدعقل لوگوں کا بجز اس کے کیا علاج؟۳؎ (۴۲)فرمایا کہ ایک شخص کا خط آیا ہے لکھا ہے کہ ایک شخص نے اپنی سالی سے بدفعلی کی تو اس کی بیوی نکاح میں رہی یانہیں ؟ میں نے لکھا ہے کہ نکاح کو توپوچھااور یہ نہ پوچھا کہ اس نالائق حرکت پر جو گناہ ہوا اس سے نجات کی کیا صورت ہے ،اگر وہ اس طرح سوال کرے کہ ایک شخص سے یہ حرکت ہوئی اس کے متعلق دوسوال ہیں کہ اس حرکت کا کیا تدارک ہے (یعنی توبہ اور معافی کی کیا صورت ہے)اور نکاح رہا یانہیں ؟ ------------------------------ ۱؎ ملفوظات حکیم الامت ج۵ص۱۶۵ملفوظ نمبر۱۸۹ ۔ ۲؎ ایضاً ج۵ ص۱۲۴ملفوظ نمبر۱۳۱