آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
(۳۶) ایک صاحب نے خط میں دریافت کیا ہے کہ آپ کے یہاں رویت ہلال کس دن ہوئی؟ جواب میں تحریر فرمایا کہ اگر میں لکھ دوں تو کیا آپ کے لیے حجت ہوگا کہ اس پر عمل کرسکیں اور جب یہ نہیں تو سوال جواب فضول ہے۔۱؎ (۳۷) آج کل یہ حالت ہے کہ لوگ ضروری باتیں تو دریافت کرتے نہیں وہ مسائل پوچھتے ہیں جن سے کبھی نہ واسطہ پڑے یا وہ مسائل پوچھتے ہیں جو پہلے سے معلوم ہیں تاکہ مولوی صاحب کا امتحان ہوسکے۔ چنانچہ رام پور میں ایک صاحب نے مجھ سے اختلافی مسائل پوچھے، جن میں میرا مسلک ان کو معلوم بھی تھا، میں سمجھ گیا کہ اس سوال سے میرا امتحان مقصود ہے، میں نے کہا کہ آپ امتحان کے لیے پوچھتے ہیں یاعمل کے لیے، اگر عمل کے لیے پوچھتے ہیں تو اس کے لیے مسئول سے اعتقاد ہونا شرط ہے اور آپ مجھے جانتے بھی نہیں تو میرے معتقد کیسے ہوگئے اور محض نام سننا کافی نہیں ، نام تو نامعلوم کتنوں کا سنا ہوگا اور اگر امتحان کے لیے پوچھتے ہیں تو آپ کو میرے امتحان کا کیا حق ہے پس وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے، میں ایسا روگ نہیں پالتا کہ ہر شخص کے سوال کا اس کی مرضی کے مطابق جواب دیا کروں ۔۲؎ (۳۸) مجھ سے ایک وکیل نے پوچھا کہ نمازیں پانچ کیوں مقرر ہوئیں ؟ میں نے کہا کہ تمہاری ناک منھ پر کیوں ہے؟ پشت پر کیوں نہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ اگر پشت پر ہوتی تو بدصورت معلوم ہوتی،میں نے کہا کہ بالکل غلط ہے اگر سب کی ناکپشت ہی پر ہوا کرتی تو ہرگز بری نہ لگتی بس چپ رہ گیا۔۳؎ (۳۹) ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ وضو میں جو پاؤں دھونا فرض ہے اس کی دلیل کیاہے؟ قرآن میں پیروں کے واسطے مسح کا حکم ہے، میں نے کہا قرآن میں کہاں ہے؟ کہنے لگے شاہ عبدالقادر صاحبؒ کے ترجمہ سے معلوم ------------------------------ ۱؎ مجالس حکیم الامت ص۱۲۲۔ ۱۲؎ التبلیغ اسباب الفتنہ ۱۰؍۱۲۷۔۳؎فیوض الخالق ص۲۸۔