آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
(۲۲) مالیگاؤں سے ایک استفتاء آیا ہے اور اس سے قبل بھی آیا تھا لکھا ہے کہ ایک صاحب امام ہیں وہ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن پر وقف نہیں کرتے بلکہ اس کے نون کو اہْدِنَا کی ھ سے ملاکر پڑھتے ہیں ، اسی طرح قُلْ ہُوَ اﷲُ اَحَدٌ پر بھی وقف نہیں کرتے اَحَدٌ کے نون تنوین کو اﷲ الصَّمد کے لام سے ملا کر پڑھتے ہیں نوبت یہاں تک پہنچی کہ فوجداری ہوگئی ہے،میں نے لکھا ہے اس طرح پڑھنا جائز تو ہے مگر جب کہ سب سمجھ دار ہوں ورنہ ایسے امام کو معزول کردو جو فتنہ برپا کرے اور موقع محل نہ سمجھے، یہ کم حوصلہ لوگوں کی باتیں ہیں اپنی علمی لیاقت جتلانے کے لیے نئے نئے کام کرتے ہیں ۔۱؎ (۲۳)میں ایک جگہ گیا توایک شخص نے گیارہویں کے متعلق سوال کیا میں نے جواب دیا کہ استفادہ مقصود ہے یا امتحان؟ اگر استفادہ کی ضرورت ہے تو اس کے لئے اعتماد شرط ہے کیونکہ جس پر اعتماد نہیں ممکن ہے کہ وہ مسئلہ غلط بتلادے،اور اعتماد کے لئے واقفیت شرط ہے اور آپ میری اصلی حالت سے ناواقف ہیں ،پس جن حضرات سے آپ کی واقفیت ہے ان سے دریافت کیجئے ۔ اور اگر امتحان مقصود ہے تو میراامتحان میرے اساتذہ لے چکے ہیں ،آپ کو اس کاکوئی حق نہیں (یہ جواب حضرت والا نے اس واسطے دیا کہ قرائن سے اس سائل کی نیت معلوم کرلی تھی کہ محض امتحان مقصود ہے ورنہ یہ مطلب نہیں کہ ناواقف کو بالکل مسئلہ نہ بتلایا جائے) ایسے ہی واقعات کی بناپر میں سخت مزاجی میں بدنام ہوں ، مگر میں کیاکروں جبکہ ایسے لوگوں کو تحقیق ہی مقصود نہیں ہوتی بلکہ محض یہ معلوم کرنا مقصود ہوتا ہے کہ اس کا مسلک کیا ہے اور جب جواب ملنے سے مسلک کا علم ہوگیا تو پھر مجیب سے کہتے ہیں کہ فلاں عالم تو اس کے خلاف کہتے ہیں ، پھر اس مجیب نے اتفاقاً اس کو برابھلا کہہ دیا ،اس کو وہاں پہنچاتے ہیں اب دونوں میں لڑائی پیداہوگئی یہ نتیجہ ہے ان کی تحقیق کا۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ الکلام الحسن ص۱۲ ۲؎ وعظ شفاء العی ملحقہ تدبیر وتوکل ص۲۲۳