آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
معلوم کیجئے، دوسروں کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہئے، بڑی ضرورت ہے کہ ہر شخص اپنی فکر میں لگے آج کل یہ مرض عام ہوگیا ہے عوام میں بھی اور خواص میں بھی کہ دوسروں کی اصلاح کی تو فکر ہے اپنی خبر نہیں ۔۱؎ (۱۹) ایک صاحب نے سوال کیا کہ حضرت! کشمیر کے متعلق اکثر لوگوں کو مالی و جانی مدد کرنے میں اشکال ہے شرعی حکم کیا ہے؟ اس سائل کا قصد خود عمل کا نہ تھا ویسے ہی مشغلہ کے طور پر پوچھا تھا اس لیے فرمایا کہ جس شخص کا امداد کرنے کا ارادہ ہو اس کو خود سوال کرنا چاہئے اگر آپ ہی کا ارادہ ہے تو ظاہر کیجئے کون سی امداد کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کا حکم ظاہر کروں ۔ عرض کیا کہ بعض لوگ دریافت کرتے ہیں ، فرمایا: سوال اسی شخص کو کرنا چاہئے جس کا کچھ کرنے کا ارادہ ہو دوسروں کو جواب دینے کی آپ کو کیا فکر؟ کہہ دیجئے ہم کو نہیں معلوم۔ دوسرے: جواب تو جب ہی ہوسکتا ہے جب سوال کی صورت متعین ہو وہاں کے واقعات کی تنقیح جب تک نہ کی جائے جواب کس بات کا ہو، اس کے متعلق یہاں پر بہت سے سوالات آتے ہیں میں لکھ دیتا ہوں کہ زبانی سمجھنے کی بات ہے، زبانی آکر سمجھ لو یہ عبارت سمجھ میں نہیں آئی، یہ اسی واسطے کہ سائل سے واقعات کی تنقیح کرلی جائے۔ (۲۰) فرمایا: ایک خط آیا ہے کہ ایک شخص ضد کررہا ہے کہ مجھ کو بقرعید کے دن قربانی میں ذبح کرڈالو، ورنہ میں کنویں میں کود کے مرجاؤں گا تو اس میں کیا مسئلہ ہے؟ میں نے لکھ دیا ہے کہ اگر ایسا کیا تو دونوں جہنم میں جاؤگے اور اگر وہ کنوئیں میں کود گیا تو وہ خود جہنمی ہوگا۔ (۲۱) فرمایا :ایک خط آیا ہے لکھا ہے کہ ارواح انبیاء واولیاء دردنیا می آیند یا نہ؟ … میں نے لکھ دیا ہے کہ بدیں مسائل چہ حاجت دردیں … اور اگر تصحیح عقائد کا شبہ ہو تو اللہ اعلم کا عقیدہ کافی ہے ایسے امور غیر مقصودہ میں ۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ ملفوظات ۱؍۱۱۔ ۱۲؎ کلمۃالحق ص۱۸۰