آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
(۱۴) فرمایا کہ بعض لوگ مجھ سے سوال کیا کرتے ہیں کہ کوّا حلال ہے یا حرام؟ میں ان سے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا اس کے کھانے کا ارادہ ہے وہ کہتے ہیں کہ صاحب: بھلا اس کو کب (کیوں ) کھانے لگیں ، میں کہتا ہوں جب ارادہ کھانے کا نہیں تو پھر کیوں پوچھتے ہو؟ کیونکہ یہ فروعی مسئلہ میں سے ہے، اصول و عقائد میں سے نہیں کہ قیامت میں پوچھ ہو کہ کیا اعتقادر کھا تھا۔ غرض میری یہ تھی کہ عوام الناس کو علماء پر جرأت نہ ہو اور فضول میں مشغول نہ ہوں ۱؎ (۱۵) فرمایا کہ ایک شخص نے مجھ سے سوال کیا کہ جس جگہ چھ مہینہ کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے وہاں روزہ کس طرح رکھا جائے۔ اس کے جواب میں فرمایا :اس جگہ حیوانات کا زندہ رہنا ممکن نہیں ہے جب کوئی وہاں زندہ بچے گا اور وہ سوال کرے گا اس وقت قواعد شرعیہ سے جواب کا الہام بھی ہوجائے گا اور بتلادیا جائے گا۔۲؎ (۱۶) ایک مولوی صاحب نے لکھا کہ حضرت آدم علیہ السلام کا انتقال پہلے ہوا ہے یا حضرت حوّا کا، اور دونوں کے انتقال میں کس قدر زمانہ بیچ میں گذرا ہے؟ جواب: میں نے کہیں نہیں دیکھا۔۳؎ (۱۷) فرمایا: ایک خط آیا ہے پوچھتے ہیں کہ تصویر کا رکھنا گناہ صغیرہ ہے یا کبیرہ؟ میں نے جواب لکھا کہ کپڑوں کے بکس میں کبھی آگ رکھتے ہوئے بھی یہ تحقیق کی ہے کہ چھوٹی چنگاری ہے یا بڑا انگارہ۔۴؎ (۱۸) ایک صاحب نے کوئی مسئلہ پیش کرکے عرض کیا کہ فلاں صاحب نے دریافت کیا ہے ان کے حالات کے لحاظ سے فرمایا کہ خود آپ کو جو ضرورت ہو اس کو ------------------------------ ۱؎ دعوات عبدیت ۱۴؍۱۸۔ ۲؎ دعوات عبدیت ۱۴؍۴۵۔ ۳؎ دعوات عبدیت ۱۹؍۸۸۔ ۴ ؎ ملفوظات حکیم الامت ۱؍۲۵۔