آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
نیاز مندی کا ہونا چاہئے اپنی حیثیت سے بڑھنا نہیں چاہئے۔ ۱؎ (۹) ایک وکیل صاحب کا خط آیا ہے کہ وکالت جائز ہے یا نہیں ؟ میں نے جواب لکھا ہے کہ کیا آپ کے پاس کوئی اور ذریعۂ معاش ہے؟ دیکھئے کیا جواب آتا ہے جیسا وہاں سے جواب آئے گا ویسا ہی جواب جائے گا۔۲؎ (۱۰) بعض علماء مسائل کے جواب میں عوام کے مذاق کی رعایت کرنے لگے مجھ کو تو اس طرز سے بے حد افسوس ہے یہ اہل علم کی شان کے بالکل خلاف ہے مسائل کے جواب کے وقت یہ شان ہونی چاہئے جیسے حاکم کے اجلاس پر ہونے کے وقت شان ہوتی ہے۔۳؎ (۱۱) فرمایا کہ ظاہری علماء کو کوئی مشکل نہیں کہ ظاہری دلائل پر فتویٰ دے دیں اور کہہ دیں کہ ہمیں حال کی خبر نہیں ، مشکل جامع بین الحقیقت و الطریقت کو ہے جس کی یہ حالت ہے کہ ہر پہلو پر رعایت کرنا اس پر ضروری ہے۔۴؎ (۱۲) ایک شخص نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ جن رسوم کو منع کرتے ہیں اور لوگ کیوں منع نہیں کرتے میں نے ان سے کہا کہ یہ سوال جیسے ہم سے کرتے ہیں اوروں سے کیوں نہیں کرتے کہ آپ جن رسوم کو منع نہیں کرتے فلاں کیوں منع کرتا ہے اگر یہ تحقیق ضروری ہے اور آپ کو تردد ہے تو جیسے ہم پر سوال ہوتا ہے ان پر بھی تو ہوتا ہے یہ عجیب اندھیر کی بات ہے۔۵؎ (۱۳) ایک صاحب کا خط آیا ہے کہ جناب آپ خط کے ذریعہ لوگوں کو مرید کرتے ہیں اس کی کیا دلیل ہے اور یہ سنت سے ثابت ہے یا نہیں ؟ میں نے جواب میں لکھا ہے کہ یہ میرا فعل ہے آپ میرے فعل کی دلیل کیوں دریافت کرتے ہیں ، آپ کو کیا حق ہے آپ بلادلیل کسی کو مرید نہ کریں ۔۶؎ ------------------------------ ۱؎ حسن العزیز ۴؍۳۳۱۔ ۲؎ الافاضات ۲؍۳۸۳۔۳؎ الافاضات ۲؍۳۲۲۔ ۴؎الافاضات ۲؍۳۲۲۔۵؎الافاضات ۲؍۲۷۴۔ ۶؎ مزید المجید ص۲۷۔