آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
تو یہ جواب لکھوں گا کہ پھر مجھ پر کیسے اعتبار کرلیا جب کہ امام ابو حنیفہ جیسے حضرات پر اعتماد نہیں کیا۔۱؎ (۵) فرمایا: ایک شخص نے مسئلہ پوچھا کہ میں نے عورت کو لفظ طلاق نہیں کہا بلکہ تلاک کہا فرمایا کہ نکاح کے وقت بھی تو نکاح نہ کہا تھا نکاہ کہا تھا اگر اس سے نکاح نہ ہوا تھا تو عورت نکاح نہ ہونے کے سبب جدا ہونا چاہئے۔۲؎ (۶) کسی عورت نے مجھ سے اپنے نکاح کے متعلق مشورہ کیا … میں نے جواب دیا کہ میرے دو کام ہیں ایک مسائل و احکام بتلانا جو مجھے یاد ہیں دوسرا کام یہ کہ دعا کردیتا ہوں اور میں تیسرے کام کا نہیں ہوں خصوصاً مشورہ کی عادت کئی وجوہ سے نہیں ہے۔۳؎ (۷) فرمایا: میرے پاس ایک خط آیا ہے کہ ایک لڑکا ہے اس سے ایک شخص کو پاک محبت ہے اس کے حال سے تعشق ہے اور صرف ایک دفعہ وہ تقبیل کی تمکین چاہتا ہے، لڑکا کہتا ہے کہ کسی معتبر عالم سے فتویٰ منگا دو مجھے عذر نہیں اور بلا اس کے ناممکن ہے، وہ شخص قسم کھاتا ہے کہ پاک محبت ہے تقبیل کے سوا اور کچھ ارادہ ہرگز نہیں اور بصورت عدم تمکین تقبیل کے اس کے مرجانے کا اندیشہ ہے تو آپ اگر فتویٰ دیدیں تو اس کی جان بچ جائے۔ میں نے جواب لکھا یہ محبت ہرگز پاک نہیں اور ایسے ناپاکوں کا مرجانا ہی بہتر ہے اور شاباش ہے اس لڑکے کو، امارد سے تعلق بہت ہی خبیث النفس کو ہوتا ہے۔۴؎ (۸) ایک حجام میرے پاس آیا اور شیوخ ورؤ ساء کے مجمع میں تان کر بڑے زور سے سلام کیا پھر اس نے وہیں مجھ سے پوچھا کہ جو کوئی سلام علیکم کہنے سے بُرا مانے وہ کیسا ہے؟ یہ تعریض تھی شیخ زادوں پر اور مقصود تھا ان کو فتویٰ سنانا، میں سمجھ گیا، میں نے کہا سلام سے برا ماننے والا برا، اور متکبرانہ لہجہ میں سلام کرنے والا بھی بُرا، لہجہ تو بہرحال ------------------------------ ۱؎ الکلام الحسن ص۷۲۔ ۲؎ الکلام الحسن ص۱۰۱۔ ۳؎ الکلام الحسن ص۲۳۔ ۴؎ حسن العزیز ۴؍۸۸۔