بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
وہ علم وتحقیق کا عہد ہے، اسے علم ومعرفت کا نبی بناکر مبعوث کیا جارہا ہے، اس کا لایا ہوا انقلاب وہ جامع انقلاب ہوگا جو علمی بھی ہوگا اور عملی بھی، اصلاحی بھی ہوگا اور تربیتی بھی، تہذیبی بھی ہوگا اور فکری بھی،جو دل ودماغ کو، فکر ونظر کو، شعور وسراپا کو، قلب وقالب کو، ظاہر وباطن سب کو بدل کر رکھ دے گا، واضح کیا جارہا ہے کہ یہ نبی اس پوری کائنات کو علم ومعرفت کے ایک نئے دور میں لے جائے گا، حکم دیا جارہا ہے: اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ (العلق/۱) مقام غور ہے، پڑھنے کا حکم ہے، مگر یہ متعین نہیں کیا جارہا ہے کہ کیا پڑھئے؟ گویا سمجھایا جارہا ہے کہ وہ سب کچھ پڑھئے، جو آپ کے لئے، انسانیت کے لئے، کائنات کے لئے نفع بخش ہو، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا ہے: اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ عِلْماً نَافِعاً۔(مشکوۃ المصابیح: الدعوات: باب جامع الدعاء) خدایا : میں آپ سے نفع بخش علم مانگتا ہوں ۔ اور یہ دعا بھی منقول ہے : اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ۔(مشکوۃ المصابیح: الدعوات: باب الاستعاذۃ) اے اللہ: میں ایسے علم سے آپ کی پناہ چاہتاہوں جو نفع بخش نہ ہو۔ پہلی وحی کے ذریعہ یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ آخری پیغمبر علیہ السلام کا لایا ہوا دین اور نظام علوم وفنون کے باب میں بے حد وسیع النظر اور فراخ دل ہے، ہر وہ علم وفن جو انسانیت کے مفاد میں ہو، جس سے کائنات کا نفع وابستہ ہو، اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ اس کا سرا اللہ کے نام اور نظام سے جڑا ہوا ہو، یہ متعین نہیں کہ کیا پڑھنا ہے، ہر نفع بخش چیز پڑھی جاسکتی ہے، ہاں یہ متعین ہے کہ جو کچھ پڑھا جائے، وہ اللہ کی وحدانیت، اس کی ذات وصفات واسماء وقدرت پر کامل یقین اور صحیح عقیدہ کے ساتھ پڑھا جائے۔