بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
پستانوں میں اتنا دودھ آجاتا ہے کہ ان کا اپنا بیٹا بھی سیر ہوجاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی سیر ہوجاتے ہیں ، گھر کی اونٹنی کا یہ عالم ہے کہ کہاں اس کے تھن دودھ سے محروم تھے، اور کہاں اس قدر دودھ اتر آتا ہے کہ پورا گھرانہ سیراب ہوجاتا ہے، حضرت حلیمہ کے شوہر کہتے ہیں : تَعَلَّمِي وَاللّٰہِ یَا حَلِیْمَۃُ: لَقَدْ أَخَذْتِ نَسَمَۃً مُبَارَکَۃً۔ حلیمہ قسم بخدا جان لو! تم نے بابرکت ہستی کو پایا ہے۔ قافلہ مکہ سے واپس ہوتا ہے، حلیمہ کی وہ مریل گدھی جس نے آتے ہوئے اپنی لاغری اور سست رفتاری سے پورے قافلے کو تنگ کررکھا تھا، یکایک اتنی تیز رفتار ہوجاتی ہے کہ سب سے آگے نکل جاتی ہے، حلیمہ کی سہیلیاں کہتی ہیں : یَا ابْنَۃَ أَبِيْ ذُوَیْبٍ: اِرْبَعِی عَلَیْنَا، أَلَیْسَتْ ہٰذِہٖ أَتاَنَکِ الَّتِيْ کُنْتِ خَرَجْتِ عَلَیْہَا۔ اے حلیمہ بنت ابی ذویب :ہم پر رحم کر و، کیا یہ وہی گدھی نہیں ہے جس پر سوار ہوکر تم آئی تھیں ۔ حلیمہ نے جواب دیا :یہ وہی گدھی ہے۔ اس پر سہیلیوں نے کہا: وَاْللّٰہِ إِنَّ لہاَ لَشَأْناً۔ اس کی تو شان ہی عجیب ہے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ سواری اگرچہ وہی ہے مگر سوار بدل گیا ہے، اور سوار بدلتے ہیں تو سواری کا انداز بھی بدل جاتا ہے۔ حضرت حلیمہ سعدیہ کا بیان ہے کہ قحط سالی کا عالم تھا: وَمَا أَعْلَمُ أَرْضاً مِنْ أَرْضِ اللّٰہِ أَجْدَبَ مِنْہَا۔