بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
ٹھکانہ نہیں ہے، حضرت آمنہ نے بیٹے کا نام ’’احمد‘‘ رکھا ہے، دادا نے پوتے کا نام ’’محمد‘‘ رکھا ہے، یہ نام انوکھا نام تھا، عبد المطلب نے فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ اِس زمین پر بھی اوراُس آسمان پر بھی میرے پوتے کی تعریف کی جائے۔‘‘(سیرت ابن کثیر:۱/۲۱۰) حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ شاعرِ رسول ہیں ، انہوں نے کیا خوب کہا ہے ؎ وَشَقَّ لَہُ مِنْ اِسْمِہٖ لِیُجِلَّہُ فَذُوْالْعَرْشِ مَحْمُوْدٌ وَہٰذَا مُحَمَّدُ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی عزت بڑھانے کے لئے ان کا نام اپنے نام سے نکالا، چناں چہ عرش والا محمود ہے تو پیغمبر محمد ہے۔ واقعی اس نام کی برکت اس طرح ظاہر ہوئی کہ اس کائنات میں جتنی تعریف اور جتنا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کمالات کا، آپ کے محاسن کااور آپ کی عظمتوں کا ہوا ہے اورہورہا ہے اور ہوگا، وہ کسی اور کا نہیں ہوسکتا، قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو خطاب کرکے فرمایا تھا: اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ۔ وَوَضَعْناَ عَنْکَ وِزْرَکَ۔ الَّذِی اَنْقَضَ ظَہْرَکَ، وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ۔(الم نشرح/۱-۴) اے نبی :کیا ہم نے ہم آپ کی خاطر آپ کا سینہ کھول نہیں دیا؟ ہم نے آپ سے آپ کا وہ بوجھ اتاردیا جوآپ کی کمر توڑے دے رہا تھا (مراد نبوت کی ذمہ داریوں سے ابتداء میں پیدا ہونے والااضطراب ہے) اور ہم نےآپ کی خاطر آپ کے تذکرے کو اونچا مقام عطا کردیا ہے۔ جب اللہ نے یہ کہا تو اس نے اپنے نبی کا نام اپنے نام کے ساتھ شامل کرلیا، اور اب کسی نمازی کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ