بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
الصِّفَۃِ، وَخُصِّصْتَ حَتَّی صِرْتَ مَسْلَاۃً، وَعُمِّمْتَ حَتَّی صِرْنَا فِیْکَ سَوَائً، وَلَوْلاَ أَنَّ مَوْتَکَ کَانَ اِخْتِیَاراً مِنَّا لَجُدْنَا مَوْتَکَ بِالنُّفُوْسِ، بِاَبِیْ أَنْتَ وَ اُمِّیْ: وَاللّٰہِ لَا یَجْمَعُ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْمَوْتَتَیْنِ، اَمَّا الْمَوْتَۃُ التَّیْ کُتِبَتْ عَلَیْکَ فَقَدْ مُتَّہَا۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ نے پاکیزہ زندگی بھی پائی اور پاکیزہ طور پر رخصت بھی ہوئے، آپ کی وفات سے وہ چیز منقطع ہوگئی جو پہلے کسی کی وفات سے منقطع نہیں ہوئی تھی، وحی کا سلسلہ بند ہوگیا، آقا : آپ کی ذات عالی مدح وتوصیف سے بالاتر ہے، آپ ہمارے لئے سامانِ تسلی تھے، آپ کی رحمت ہر امیر وغریب پر یکساں تھی، ہمارا بس چلتا تو آپ کے بدلے ہزار جانیں ہم لٹادیتے، مگر جو موت آپ کو آنی تھی آگئی، اب کوئی اورموت نہیں آئے گی۔ (بخاری: المغازی: باب مرض النبی، الجنائز: باب الدخول علی المیت، المناقب: باب فضل ابی بکر، الروض الانف،۲/۳۷۶) یہ کہہ کر صدیق اکبرؓ چادر جسد اقدس پر اوڑھادیتے ہیں ، باہر آتے ہیں ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورا مدینہ یتیم ہوگیا ہے، اجتماعی یتیمی کی لرزہ خیر کیفیت ہے، اس نازک موقع پر وہی صدیق اکبر آگے آتے ہیں ، جن کو رقیق القلب کہا جاتا تھا، جن پر غلبۂ بکاء رہتا تھا، جن کو ارحم الامۃ سمجھا جاتا تھا، مگر اب انہوں نے استقامت اور ثبات کا جو کردار ادا کیا ہے، وہ تاریخ اسلام میں زریں حروف سے نقش ہے۔ حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ کو بٹھا رہے ہیں ، مگرحضرت عمرؓ بے خودی کے اس مرحلے میں ہیں کہ بیٹھنے کو تیار نہیں ، حضرت ابوبکر کا خطاب شروع ہوتا ہے: